counter easy hit

ہیڈ لائنز سروے ،پنجاب کی سیاسی صورتحال

لاہور;پاکستان کے چاروں صوبوں میں وفاق اور صوبوں کی سطح پر الیکشن کا انعقاد 25 جولائی کو کیا جا رہا ہے جس میں عوام اپنے پسندیدہ نمائندوں کو منتخب کر کے ایوان میں بھیجیں گے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں تمام صوبوں کے کردار کو یوں تو ہمیشہ اہمیت دی جاتی ہے لیکن پنجاب اور سندھ کو اس حوالے سے بھی خاص اہمیت حاصل ہے کہ وفاق اور پنجاب میں قائم کی جانے والی حکومتوں کا فیصلہ انہی دو صوبوں کی سیاست سے ہوتا ہے۔ اس حوالے سے دنیا ٹی وی کے خصوصی پروگرام ہیڈلائنز میں ایک سروے رپورٹ تیار کی گئی جس کے مندرجات درج ذیل ہیں۔

Headlines survey, political situation in Punjabصوبہ پنجاب ;ملکی سیاست میں صوبہ پنجاب کو ہمیشہ سے خاص اہمیت حاصل رہی ہے۔ پاکستان کی سیاست میں کون سیاستدان وفاق کی سطح پر کامیابی حاصل کرے گا اور کون حکومت سازی کیلئے فیورٹ ہے اس کا فیصلہ اسی صوبے کی سیاست سے ہوتا ہے۔ صوبہ پنجاب قومی اسمبلی کی 141 نشستوں کے ساتھ خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ اسی صوبے کی سیاست سے اس بات کا بھی تعین ہوتا ہے کہ وزارت عظمیٰ کا منصب کس امیدوار کے پاس جا سکتا ہے ۔ گزشتہ دو انتخابات کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ پنجاب میں دو بار مسلم لیگ ن کو حکومت بنانے کا اعزاز حاصل ہوا لیکن اس بار تحریک انصاف کے عمران خان پنجاب کی سیاست میں خاصے سرگرم ہیں اور ان کا دعویٰ ہے کہ پنجاب میں اس بار تبدیلی آئے گی ،

جنوبی پنجاب صوبہ محاذ  ;دوسری طرف پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین آصف زرداری کی جانب سے بھی یہی دعویٰ کیا جارہا ہے کہ پنجاب اس بار ان کا ہوگا۔ یہ تو اس بات پر منحصر ہے کہ پیپلز پارٹی نے   جنوبی پنجاب صوبہ محاذ    کے نام پر عوام کو کس حد تک قائل کیا اور کس حد تک ان کے خیالات تبدیل کرنے میں کامیاب ہوئی، مسلم لیگ ن کی تو یہی کوشش ہے کہ پنجاب میں مسلسل تیسری حکومت ان کی بنے لیکن زرداری کی جانب سے جنوبی پنجاب صوبے کا لالی پاپ اور تحریک انصاف کی جانب سے تبدیلی کے نعرے کیا عوام کو قائل کر سکیں گے اس کیلئے تو انتظار کرنا ہوگا۔

لاہور کے اہم حلقے اور امیدوار 227;صوبائی دارالحکومت میں کئی ایسے حلقے ہیں جہاں سے کئی سیاسی جماعتوں کے اہم اور کلیدی امیدوار میدان میں ہیں، صوبہ پنجاب قومی اسمبلی کی 141 اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر مشتمل ہے۔ صوبہ پنجاب اور قومی اسمبلی کی پہلی نشست کا حلقہ این اے اور پی پی ایک اٹک سے شروع ہوتا ہے جبکہ اس کا اختتام راجن پور کے بارڈر پر ہوتا ہے۔ حلقہ بندیوں سے قبل اس حلقے میں قومی اسمبلی کی 148 نشستیں تھیں جبکہ نئی حلقہ بندیوں میں یہ تعداد گھٹ کر 141 تک آگئی، یہ صورتحال ان امیدواروں کیلئے خاصی پریشان کن تھی جو ماضی میں ان حلقوں سے مسلسل کامیاب ہوتے آئے تھے۔ 2013 کے الیکشن میں ن لیگ پنجاب سے 35 ، تحریک انصاف نے 3 جبکہ ق لیگ اور عوامی مسلم لیگ کا ایک ایک امیدوار ان حلقوں سے سرخرو ہوسکا۔ پروگرام   ہیڈلائنز    کے سروے کے مطابق مسلم لیگ ن کو پنجاب میں 52 فیصد ، پی ٹی آئی کو 39 فیصد مقبولیت حاصل ہے۔ جبکہ پاکسان پیپلز پارٹی کو ایک فیصد اور دیگر جماعتوں کو 8 فیصد مقبولیت حاصل ہے ۔ لاہور میں علیم خان اور ایاز صادق میں بڑا معرکہ ہونے کی امید ہے ۔ عبدالعلیم خان کا تعلق پاکستان تحریک انصاف سے ہے اور وہ عمران خان کے انتہائی قریبی اور بااعتماد ساتھیوں میں شمار کئے جاتے ہیں جبکہ ایاز صادق بھی اپنی ملنسار اور دھیمی طبیعت کے حوالے سے حلیفوں اور حریفوں دونوں میں اپنا ایک حلقہ احباب رکھتے ہیں۔ ایاز صادق سابق دور حکومت میں مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کی سیٹ جیتنے میں کامیاب ہوئے اور پھر قومی اسمبلی کے سپیکر منتخب ہوئے۔سندھ کی سیاست
پاکستان کی سیاست میں مسلم لیگ ن کو پنجاب کی سطح پر کامیابی کے ساتھ حکمرانی کرنے کا اعزاز حاصل ہوا۔ مسلم لیگ ن نے گزشتہ دس برس تک بلاشرکت غیرے پنجاب پر حکومت کی۔ سندھ میں یوں تو پیپلز پارٹی کا ووٹ بینک خاصا مضبوط ہے مگر اس کے باوجود یہ بات یاد رکھنی چاہیئے کہ وہ اس بار انتہائی مشکل حالات میں الیکشن میں حصہ لے رہی ہے۔ سندھ میں ایم کیو ایم کا ووٹ بینک 2013 کی نسبت خاصا کمزور ہوچکا ہے دوسری جانب تحریک انصاف ، مسلم لیگ ن اور پی ایس پی بھی میدان میں ہیں۔ صوبہ سندھ قومی اسمبلی کی 61 جبکہ صوبائی اسمبلی کی 130 نشستوں پر مشتمل ہے۔ اس صوبے کی قومی و صوبائی اسمبلیوں کا پہلا حلقہ جیکب آباد جبکہ اس کا آخری حلقہ کراچی پر مشتمل ہے۔ صوبائی اسمبلی کی کراچی شہر سے 39 اور قومی اسمبلی کی 18 سیٹیں ہیں،

اندرون سندھ کی سیاست ;کراچی سمیت اندرون سندھ کی سیاست میں پیپلز پارٹی کو کلیدی کردار حاصل ہے ۔ یہ صوبہ سندھ ہی تھا جہاں سے 2013 ء میں پیپلز پارٹی نے 94 سیٹیں جیت کر اپنی حکومت بنائی تھی۔
ایک خصوصی سروے کے دوران اس بات کا علم ہوا کہ کراچی میں پیپلز پارٹی کا ووٹ بینک 38 فیصد ، ایم کیو ایم کا 20 فیصد اور پی ٹی آئی کا ووٹ بینک 17 فیصد ہے جبکہ دیگر جماعتوں کے ووٹ بینک مجموعی طور پر 13 فیصد ہیں جبکہ سندھ کی سطح پر دیکھا جائے تو پیپلز پارٹی 53 فیصد ووٹوں کے ساتھ پہلے نمبر پر ، تحریک انصاف 14 فیصد کے ساتھ دوسرے ، ایم کیو ایم اور دیگر سیاسی جماعتیں 10 ،10 فیصد ووٹوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہیں۔ اندرون سندھ کا مشاہدہ کیا جائے تو یہ حیران کن صورتحال سامنے آتی ہے کہ پیپلز پارٹی کو 63 فیصد ووٹوں کے ساتھ پہلی پوزیشن حاصل ہے جبکہ دیگر جماعتوں کو 20 فیصد مقبولیت حاصل ہےکے پی کے کی سیاسی سرگرمیاں
پاکستان کے دیگر صوبوں میں ہونے والی سیاست کے برعکس اس صوبے نے سروے کے دورا ن خوشگوار حقائق سے آگاہ کیا ۔اس صوبے کی دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ آج تک ملکی تاریخ میں جتنے الیکشن منعقد ہوئے اس میں کسی بھی جماعت کو مسلسل دوسری بار اقتدار میں آنے کا موقع نہیں مل سکا۔ لیکن دوسری جانب تحریک انصاف کا دعویٰ ہے کہ 2018 ء کے الیکشن کے بعد اس صوبے میں ایک بار پھر ان کی حکومت ہی ہوگی، تحریک انصاف کے علاوہ اے این پی ، ایم ایم اے بھی اس صوبے کی سیاست میں سرگرم ہیں اور اقتدار میں آنے کیلئے سرتوڑ کوششیں کر رہی ہیں۔
اس صوبے سے قومی اسمبلی کی ماضی میں 35 نشستیں تھیں جو بڑھ کر نئی حلقہ بندیوں میں 39 ہوگئیں، جبکہ اس کی صوبائی اسمبلی 99 سیٹوں پر مشتمل ہے۔ 2013 کے انتخابات میں پی ٹی آئی نے 63 سیٹوں پر کامیابی کے بعد اس صوبے میں حکومت بنائی لیکن اب دیکھنا ہوگا کہ کیا پی ٹی آئی مسلسل دوسری بار اس صوبے میں حکومت بنا کر نیا ریکارڈ قائم کر سکتی ہے کہ نہیں۔
کے پی کے میں تحریک انصاف مقبولیت کے اعتبار سے 54 فیصد ، ن لیگ 16 فیصد ، جے یو آئی ف 11 فیصد ، دیگر سیاسی جماعتیں 13 فیصد اور اے این پی کو 6 فیصد مقبولیت حاصل ہے۔
ملک میں ہونے والے انتخابات کے نتائج کچھ بھی ہوں اس ملک کے عوام کو ان کے مسائل کا حل چاہیے، دیکھنا یہ ہے کہ کون سی جماعت عوامی مسائل کا حل نکال کر ان کے خوشحال مستقبل کا خواب پورا کر سکتی ہے۔