counter easy hit

حاجی غلام فرید خان سے ایک انٹرویو قسط نمبر 2

Fareed Khan

Fareed Khan

تحریر: ایم آر ملک
ملک کی مجموعی پیداوار کا 75 فیصد سے زائد حصہ رکھنے والے خطے کی ملتان کاٹن ایسوسی ایشن (ایم سی اے) کو روئی کے سپاٹ ریٹ کے اجراء کی اجازت نہیں کاٹن مارکیٹ پر نرخ مقرر کرنے ،کاٹن ریٹ کے اجراء پر کراچی کاٹن ایسوسی ایشن کی اجارہ داری ہے اور کے سی اے کے مقرر کردہ ریٹس کا اطلاق پورے ملک کی کاٹن انڈسٹری پر ہوتا ہے ملک میں کپاس کی پروسیسنگ، پریسنگ اور جیننگ کے مراحل کی تکمیل کیلئے 1200 جیننگ فیکٹریاں کام کر رہی ہیں جس میں 850 جیننگ فیکٹریاں جنوبی پنجاب میں ہیں لیکن جنوبی پنجاب کی ٹیکسٹائل اور جیننگ انڈسٹری کو بجلی اور گیس کی فراہمی سے محروم رکھا جا رہا ہے۔

جبکہ اپر پنجاب اور کراچی کی انڈسٹری کو 24گھنٹے بجلی فراہم کی جارہی ہے کراچی ،لاہور ،فیصل آباد اور اسلام آباد میں جنوبی پنجاب میں تیار ہونے والی مصنوعات دستکاریوں اور ایمبرائڈری کے ڈسپلے سنٹرز اور ایگزی بیشن سنٹر قائم ہیں جبکہ ہنر مندوں اور دستکاروں کو اُن کی تیار کردہ مصنوعات کا معاوضہ نہ ہونے کے برابر دیا جاتا ہے خطے میں پیدا ہونے والی کپاس سے اربوں ڈالر سالانہ کی برآمدات کی جارہی ہیں اور کاٹن اکانومی میں سب سے اہم کردار جنوبی پنجاب کا ہے سہولیات کی عدم فراہمی کے باعث خطے میں نئی جیننگ اور ٹیکسٹائل و سپننگ انڈسٹری کا قیام مفقود ہوتا جارہا ہے نئی صنعتوں کا قیام نہ ہونے سے بیروز گاری میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔

جبکہ پہلے سے موجود صنعتیں بھی بند ہوتی جارہی ہیں جس سے جنوبی پنجاب کے عوام میں احساس محرومی بڑھ رہا ہے جنوبی پنجاب کے پانچ کروڑ عوام کے دلوں پر “اساں قیدی تخت لہور”کے نعرے کی شکل میں چسپاں ہو کر رہ گیا ہیاُن کا مزید کہنا تھا کہ 2010کے سیلاب میں صرف جنوبی پنجاب میں سنتالیس لاکھ انیس ہزار آٹھ سو پینتالیس ایکڑ رقبہ میں سے اکتالیس لاکھ پچاس ہزار اڑتیس ایکڑ رقبہ پر کھڑی فصلات نیست ونابود ہو گئی ہیں۔

پانچ لاکھ انہتر ہزار آٹھ سو سات ایکڑ رقبہ پر جو فصلات بچی اُن کی ہیت بدل گئی،جبکہ جنوبی پنجاب میں تیرہ لاکھ سے زائد مکانات تباہ ہوئے ،دولاکھ مویشی ہلاک جبکہ زراعت کا نقصان تین سو پچاس ارب روپے ہوا،صنعت کار دیوالیہ ہوگئے سیلاب کے دنوں میں اکثریت ایسی تھی جو فلڈ ریلیف کیمپوں میں خانہ بدوشوں کی زندگی گزارنے کے بجائے اپنے عزیز واقارب کے ہاں پناہ لینے پر مجبور ہوئی اور اس اکثریت کو رجسٹرڈ نہ کیا جا سکا ۔یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ اکثریت حکومتی امداد سے محرومی کی بناء پر فاقوں کی زد میںرہی ۔مقامی انتظامیہ نے اکثر جگہوں پر نادرا سے ریکارڈ اکٹھا کیا اور اس ریکارڈ میں درج نشیب کی عوام کے نام راشن لینے والے افراد کے طور پر درج کر لیے ،ضلعی انتظامیہ نے اکثر جگہوں پر وزیرِ اعلیٰ کو جو بریفنگ دی اُس میں نادرا کے فگر ڈالے گئے،اکثر اضلاع میں راشن نہ ملنے پر احتجاجی مظاہرے ہوئے۔

ضلعی انتظامیہ نے پٹواریوں کے ذریعے سروے کرائے جبکہ یہ سروے سیاسی و سماجی ورکروں کے ذریعے ہونا چاہیے تھا۔پینتیس لاکھ بچوں کی کراہیں اس وقت پوری قوم کی سماعت سے ٹکر ارہی تھیں کہا جاتا ہے کہ جنوبی پنجاب میں سب سے زیادہ استحصال تھل کا ہوا آپ کیا کہتے ہیں ؟ مملکت خدادا میں تین بڑے صحرا ہیں جو جنوبی پنجاب میں واقع ہیں جو تھر ، چولستان اور تھل کے نام سے موسوم ہیں خصوصاً تھل کا علاقہ صدیوں سے ایک ویران ریگستان پر مشتمل ہے اس وسیع و عریض علاقہ کی تعمیر و ترقی کی خاطر سندھ ساگر دوآبہ ایکٹ 1912کی شکل میں تھل کے زمینداروں اور گورنمنٹ پنجاب (انگریزی دور ) کے مابین برضا مندی ایک معاہدہ طے پایا تھا کہ گورنمنٹ ایک مقررہ عرصے کے اندر تھل میں نہری نظام جاری کرنے کا بندوبست کرے گی اور نہریعلاقہ کے زمیندار اس کے عوض اپنے رقبہ کا 3/1حصہ گورنمنٹ کے حوالے کریں گے مگر جنگ عظیم اول اور چند دیگر وجوہات کی بنا پر گورنمنٹ پنجاب مقررہ میعاد کے اندر نہر لانے سے قاصر رہی حتٰی کہ سندھ ساگر دوآب ایکٹ متذکرہ بالا سال 1932ء میں ختم ہو گیا۔

پاکستان کے معرض وجود میں آنے پر پاک پنجاب گورنمنٹ کو جب مہاجرین کی آباد کاری کا مسئلہ درپیش آیا تو اس سنگین صورت حال میں کثیر تعداد رقبہ کی ضرورت کو مد نظر رکھتے ہوئے گورنمنٹ کو اس علاقہ کی طرف توجہ مبذول کرنا پڑی کہ کن ذرائع سے یہ کمی رقبہ پوری کی جانی مناسب ہے چنانچہ ان حالات کے پیش نظر تھل ڈویلپمنٹ ایکٹ (TDA)1949ء میں منظور ہوا اور ایک نیم خود مختار ادارہ TDAوجود میں آیا تاکہ مہاجرین کی آباد کاری کا کام جلدی نمٹایا جاسکے اور گنجان آباد اضلاع سے مہاجرین کا بوجھ کم کیا جائے اس پیش رفت میں گورنمنٹ پاک پنجاب نے مختلف نوٹیفیکیشن ہائے کے ذریعے اور ایک فارمولے کے تحت لوکل مالکان سے صرف ضلع لیہ میں دو لاکھ اکہتر ہزار دو سو انہتر ایکڑ رقبہ حاصل کیا واضح رہے کہ تھل کے علاقے میں ضلع بھکر ،ضلع خوشاب ،ضلع میانوالی ،ضلع لیہ ِاور جزوی طور پر ضلع مظفر گڑھ بھی شامل ہے لوکل مالکان سے حاصل کی گئی اراضی گورنمنٹ اپنے تصرف میں لا چکی ہے مگر تھل کے متذکرہ اضلاع کے علاقہ تھل کو آب پاش کرنے کیلئے تھل کینال جاری کی گئی جس میں دس ہزار کیوسک نہری پانی کی کم از کم ضرورت تھی اور صرف ضلع لیہ کی ضرورت 3500کیوسک تھی جبکہ لیہ کو اس وقت صرف 1600کیوسک پانی ملتا ہے یہ رقبہ ایک معاہدے کے تحت لیا گیا جسے واپس کرنا تھا لیکن یہ رقبہ واپس نہ کیا جاسکا جو کلیم مافیا کی دسترس میں آ گیا۔

M R Malik

M R Malik

تحریر: ایم آر ملک