counter easy hit

گوادر پاکستان کے خوشحال مستقبل کا ضامن

Gwadar Port

Gwadar Port

تحریر : ریما عاصم
گوادر کی تعمیر سے پاکستان کا مستقبل وابسطہ ہے، گوادر خالصتا تجارتی منصوبہ ہے ۔پورٹ کی جلد تکمیل نہ صرف پاکستان اور چین بلکہ جنوبی ، مغربی اور وسط ایشیاء کے ممالک کے لئے بھی سود مند ہے۔ اس سے نہ صرف روزگار کے مواقع بڑھیں گے بلکہ ملک معاشی اور اقتصادی طور پر بھی مضبوط ہو گا تاہم اس سلسلے میں بلوچ عوام اور دیگر سٹیک ہولڈرز کے تحفظات دور کرنے کی ضرورت ہے۔ بلوچ عوام کو بھی آگے بڑھ کر تعاون کرنا ہو گا کیونکہ یہ منصوبہ ان کے اپنے مفاد میں بھی ہے۔ گوادر کی اہمیت کسی سے پوشیدہ نہیں تاہم گوادر سے اسی وقت استفادہ ممکن ہے جب بلوچ عوام کے خدشات دور اور روڈ انفراسٹرکچر ٹھیک کیا جائے۔ ہمیں بلوچ عوام کی مشکلات کی طرف بھی توجہ دینا ہو گی اور امن و امان کی صورتحال بہتر بنانا ہو گی۔

گوادر فری زون اور سپیشل اکنامک زون بنے گا۔ اس سلسلے میں بلوچستان حکومت تعاون کر رہی ہے مگر بلوچ عوام کو بھی آگے آنا ہو گا اور تعاون کرنا ہو گا کیونکہ یہ منصوبہ ان کے اپنے مفاد میں ہے۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب بلوچ عوام کے خدشات کا ازالہ ہو گا۔ گوادر کی ترقی کا منصوبہ 90 کی دہائی میں تیار کیا گیا اس کی وجہ گوادر کی جغرافیائی خدو خال ہیں کیونکہ یہ وسط ، جنوبی اور مغربی ایشیاء کے سنگم پر واقع ہے جہاں دنیا کی آبادی میں سے تقریباً تین ارب کے قریب انسان بستے ہیں۔

یہ منصوبہ 2017ء تک مکمل ہو گا اور اس سے خطے میں بڑے پیمانے پر تجارتی مواقع پیدا ہوں گے۔ جولائی 2013ء میں وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے دورہ چین کے دوران اپنے چینی ہم منصب کے ساتھ گوادر کو راہداری فراہم کرنے کے معاہدے پر دستخط کئے۔ گوادر کی تعمیر کے ذریعے حکومت خطے میں موجود دیگر بندرگاہوں سے عداوت کی بنیاد نہیں رکھنا چاہتی بلکہ خطے کی مجموعی ترقی کا خواب شرمندہ تعبیر کرنا چاہتی ہے۔ پاکستان اقتصادی مشکلات میں گھرا ہوا ہے جبکہ گوادر کی تعمیر و ترقی کے ذریعے بلوچستان کی بہتری میں پاکستان کی خوشحالی پنہاں ہے۔ حکومت N-85 پراجیکٹ پر کام کر رہی ہے جو رتوڈیرو سے ہوتی ہوئی گوادر کو ملک کے دیگر حصوں سے ملائے گی۔

حکومت دنیا بھر میں ساحل سمندر پر واقع شہروں کی طرز پر گوادر سٹی کی تعمیر و ترقی کے لئے جامع اور مشترکہ حکمت عملی اختیار کئے ہوئے ہے تا کہ اس منصوبے کے فوائد اور ثمرات مقامی آبادی تک موثر انداز میں منتقل کئے جا سکیں۔ گوادر کے غیر معمولی خدوخال علاقے میں سیاحت کے ساتھ ساتھ ماہی گیری کے فروغ کے لئے انتہائی موزوں ہیں اور ان سے علاقے میں انفراسٹرکچر کی ترقی میں خاطر خواہ معاونت ملے گی۔ دنیا بھر میں سرمایہ کار اور لوگ امن اور تحفظ چاہتے ہیں۔ وسائل کی کمی کشمکش کو جنم دیتی ہے جبکہ گوادر کی تعمیر سے صوبے کے عوام کو بہتر وسائل اور روزگار کے مواقع میسر آئیں گے۔ گوادر کی جغرافیائی حیثیت کے پیش نظر جنوبی ، مغربی اور وسط ایشیاء میں اس کے قیام کی اہمیت کو بہت عرصہ قبل محسوس کیا گیا تھا مگر یکے بعد دیگرے سیاسی تغیر کی وجہ سے اس کی تعمیر قدرے سست روی کا شکار رہی اور 1992ء میں گوادر میں جہاز کو لنگر انداز کرنے کی سہولت کی فراہمی کا آغاز ہوا۔

گوادر ایک ایسا منصوبہ ہے جس سے پورے خطے کی ترقی و خوشحالی وابستہ ہے۔گوادر بندرگاہ جغرافیائی اعتبار سے نہایت اہمیت کی حامل ہے جو مستقبل میں تجارت کی ضروریات پوری کرے گی اور معیشت تیزی سے اوپر جائے گی۔ اس وقت گوادر میں ہنر مند افراد کی کمی کا مسئلہ ہے جو بلوچ نوجوانوں کی تربیت کر کے حل کیا جا سکتا ہے جس میں صرف ایک ماہ لگے گا۔ جغرافیائی اعتبار سے گوادر بھارت کی دسترس سے دور ہے جبکہ پاکستان نیوی انڈین نیوی کا مقابلہ کرنے کی پوری صلاحیت رکھتی ہے۔ گوادر ایک خوبصورت جگہ ہے جہاں سیر و سیاحت کو فروغ بھی دیا جا سکتا ہے۔ گواد ر کے انفراسٹرکچر کی تعمیر و ترقی کے لیے معقول سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ گوادر کے رابطہ قدرتی وسائل سے مالا مال علاقوں سے ضروری ہے۔ گوادر پاکستان کے خوشحال مستقبل کا ضامن ہے۔ گوادر کا شمار ان علاقوں میں ہوتا ہے جو دہشت گردی سے کافی حد تک محفوظ ہیں اور اس ضمن میں میڈیا پر چلنے والی خبروں کو بہتر تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ انسان وسائل کا محتاج ہے اور ٹیکنالوجی میں جدت کے ساتھ ساتھ وسائل کے حصول کی دوڑ میں اضافہ ہو رہا ہے اور دنیا کے تمام ممالک وسائل کے حصول کیلئے کوشاں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سوویت یونین کے زوال کے بعد دنیا میں وسائل کے حصول کی کشمکش میں اضافہ ہوا ہے مگر محض وسائل تک رسائی ہی کافی نہیں بلکہ اس کے لئے راہداریوں کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ دنیا کی 90 فیصد سے زیادہ تجارت سمندری راستوں سے ہوتی ہے اور بندرگاہوں و ترقی اور خوشحالی کا دروازہ سمجھا جاتا ہے۔ گوادر عالمی تجار ت میں اہم کردار ادا کرے گا۔ کراچی کی بندرگاہ سے ہونیوالی تجارت کا مجموعی حجم 65 ملین ٹن ہے جو کہ گوادر بندرگاہ کی تعمیر کے بعد 300 ملین ٹن سے بھی زیادہ ہونے کے امکانات ہیں جس سے بلوچستان سمیت پورے ملک میں خوشحالی آئے گی اور روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے۔ بلوچستان کی مقامی آبادی گوادر پورٹ کے فوائد میں برابر کی شراکت دار ہو گی۔چین پراجیکٹ کے لئے سرمایہ کاری کر رہا ہے جس سے دنیا کی دیگر منڈیوں تک ان کی رسائی آسان ہو گی اور اُن کی برآمدات میں اضافہ ہو گا۔ گوادر منصوبہ ہماری امیدوں کا مرکز ہے جو خطے میں تجارت کے فروغ میں اہم کردار ادا کرے گا۔

تحریر : ریما عاصم