counter easy hit

’’ کیا خوب آدمی تھا خدا مغفرت کرے ‘‘

 God will forgive

God will forgive

ہر وقت ہنسی ، مذاق اور ٹھٹھہ کرنے والے بقراط مرزا کو میں نے زندگی میں بہت کم افسردہ اور ایسا سنجیدہ دیکھا ہے ۔ میں نے بقراط مرزا کو سنجیدگی کے اس خول سے جب باہر نکالنے کی کوشش کی تو مرزا کے گالوں پر دو آنسو ڈھلک گئے ۔ میں نے مرزا کو موت کے منہ میں بھی قہقہہ لگاتے اور ہر دکھ تکلیف کو چٹکیوں میں اڑاتے دیکھا ہے ، مگر یہ آنسو ۔۔۔ ؟
میں نے حیرت سے پوچھا ’’ مرزا خیر تو ہے ؟ ‘‘ مرزا بولے ’’ میرا غم گسار چلا گیا ‘‘ میں نے پوچھا کون ۔۔۔ بولے وہ ہی جس کے دکھ میں آج پوری قوم رنجیدہ ہے ۔ ہر آنکھ اشکبار ہ، ہر دل سوگوار ، ہر چہرے پر دکھ اور درد کی ایک نئی کہانی لکھی ہے ۔ ہر شخص افسردہ ہے اس شخص کیلئے جس کا ان سے کوئی خونی رشتہ نہیں تھا کوئی کاروباری رشتہ بھی نہیں تھا ۔ سینکڑوں ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں لوگ ایسے بھی ہیں جو شاید انہیں کبھی زندگی میں ملے بھی نہ ہوں مگر وہ لوگ بھی آج ایسے سوگوار ہیں جیسے ان کے گھر کا کوئی فرد دنیا سے رخصت ہو گیا ۔ ان کا صرف انسانیت کا رشتہ تھا ۔ میں نے کہا یار مرزا آپ کی بات ٹھیک ہے وہ ہر اس شخص کی امید اور سہارا تھا جس کا کوئی سہارا اور والی وارث نہ ہو میں نے کہا کہ مرزا بے شک وہ انسانیت کا محسن تھا ۔
’’ کیا خوب آدمی تھا خدا مغفرت کرے ‘‘ downloadمیں نے دل سے آمین کہا اور مرزا سے کہا کہ آج کا دن ایدھی کے حوالے سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا مرزا بولے آج کا دن صرف ایدھی ہی نہیں پاکستان کی تاریخ میں ایک اور حوالے سے بھی یاد رکھا جائے گا ۔ میں کہا دوسرا تاریخی حوالہ کون سا ؟ بڑے جلالی لہجے میں کہنے لگے کہ ذرا دل تھام کے سنو کہ تاریخ کا مورخ لکھے گا کہ ملک پاکستان کے دو افراد بیمار تھے ایک اپنا علاج کرانے کیلئے لندن چلاگیا جس کو دنیا پاکستان کے وزیر اعظم میاں نواز شریف کے نام سے جانتی ہے دوسرا عبدالستار ایدھی جسے لوگ بے سہارا ، لا وارث ، یتیم بچوں اور گلی سڑی بدبو دار لاشوں کو کفن دے کر دفن کرنے والے اور انسانیت کے خادم کے طور پر جانتی ہے ۔ ا سے آصف علی زرداری نے رحمن ملک کے ذریعے اور آصفہ بھٹو نے ایک بیٹی ہونے کے ناطے اور نہ جانے کس کس نے بیرون ملک علاج کی پیشکش کی مگر انہوں نے سادا سا جواب دیا کہ ‘‘ میرا جینا مرنا پاکستان میں ہی ہے ‘‘ تاریخ گواہ ہے دونوں کا علاج ہوتا رہا ایک کا لندن کے مہنگے ترین ہسپتال میں اور دوسرے کا پاکستان میں ۔ پھر ایک دن ایسا آیا کہ’’ ایک آرہا تھا اور دوسرا جا رہا تھا‘‘ ۔ میں نے کہا کیا مطلب ؟
بولے دنیا بھر کے ٹی وی چینلز پر دو خبریں بیک وقت چل رہی تھیں ۔ ایک خبر یہ تھی مولانا عبدالستار ایدھی کی طبیعت بگڑ گئی ۔ سانس لینے میں دشواری انہیں وینٹی لیٹر پر منتقل کر دیا گیا جبکہ دوسری خبر یہ چل رہی تھی کہ میاں محمد نواز شریف صحت یاب ہو گئے ۔ ڈاکٹروں نے انہیں سفر کرنے کی اجازت دے دی ۔ میاں محمد نواز شریف کو لینے کیلئے پی آئی اے کا خصوصی طیارہ جس کو وی آئی پی بنانے کیلئے پی آئی اے کو لاکھوں ڈالر خرچ کرنے پڑے ۔ طیارے میں شریف خاندان کے 24افراد سوار تھے ادھر اس طیارے نے لندن سے پاکستان آنے کیلئے پرواز کی اد ھر عبدالستار ایدھی کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی ۔
میں نے مرزا سے کہا کہ یہ سب کچھ تو نارمل ہے زندگی میں آنا جانا تو لگا رہتا ہے ۔ زندگی اور موت کا کھیل تو ازل سے ابد تک جاری ہے اوررہے گا ۔ مرزا بولے یہ بات نہیں ہے اصل کہانی کا آغاز یہاں سے ہوتا ہے ۔ مولانا عبدالستار ایدھی کوئی وزیر اعظم کوئی صدر کوئی ارب پتی کوئی بہت بڑی سیاسی شخصیت نہیں تھی بلکہ وہ تو بھارت سے ہجرت کر کے آنے والے ایک عام آدمی تھے انہوں نے انسانیت کی خدمت کی وہ مثال قائم کی جسے پوری دنیا میں کوئی ایک فرد بھی جھٹلا نہیں سکتا ۔ یہاں تک کہ خدمت خلق کا دوسرا نام عبدالستار ایدھی لازم ملزوم بن کر رہ گئے ۔ عبدالستار ایدھی کو پاکستان کے اعلیٰ اعزاز کے ساتھ دفن کیا گیا ، پاکستان کے چیف آف آرمی سٹاف نے انہیں بارودی سلیوٹ پیش کیا ۔ مسلح افواج نے انہیں الوداعی سلامی دی انہیں 19توپوں کی سلامی دی گئی ۔ صدر پاکستان اور چاروں صوبوں کے وزراء اعلیٰ ، دیگر پاکستان کی اعلیٰ شخصیات نے انکے جنازے میں شرکت کی ، پاکستان کا پر چم سر نگوں رہا اور دنیا بھر کے ممالک سے ان کے صدور اور اعلیٰ شخصیات نے تعزیت کے پیغامات دیئے جنکا سلسلہ تاحال جاری ہے ۔ مولانا عبدالستار ایدھی دنیا سے تو رخصت ہو گئے مگر جاتے جاتے قوم کی دولت پر وی آئی پی بننے والوں ، مہنگے ترین ہسپتالوں میں علاج کرانے والوں ، ہزاروں ڈالرز کے سوٹ پہننے والوں ، دنیا بھر کے فائیو سٹار ہوٹلوں میں رہنے والوں کیلئے ایک پیغام چھوڑ گئے کہ اگر کردار زندہ ہو تو صرف دو جوڑے ملیشیاء ، ایک دھو لیا ایک پہن لیا سے زندگی گزاری جا سکتی ہے ۔ مہنگے ترین جوتے پہننے کی بجائے پلاسٹک کے سلیپر پہن کر زندگی بسر کی جا سکتی ہے ۔ محلات کی بجائے ایک کمرے میں بھی زندہ رہا جا سکتا ہے ۔ اگر کردار زندہ ہو تو ’’ چپ رہ کر بھی شور مچایا جا سکتا ہے ‘‘ ۔ اور بتا دیا کہ’’ بندے کے ساتھ اعمال جاتے ہیں مال نہیں‘‘