counter easy hit

خدا را اپنی اس بیٹی کو مرنے کے لیے اکیلا نہ چھوڑنا ۔۔۔۔ صف اول کے کالم نگار نے کینسر کے مرض میں مبتلا پاکستان کی قابل اور ہونہار بیٹی کے لیے قوم کو اپیل کردی

لاہور(ویب ڈیسک)انتیس سالہ فاطمہ علی ایک پاکستانی امریکن جسے بچپن سے ہی بہترین کھانے پکانے کا شوق تھا اپنے شوق کی تکمیل کے لیے اس نے اپنے والدین سے اپنی اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ ایک اعلیٰ شیف بننا چاہتی ہے۔ والدین نے بیٹی کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے اسے نامور کالم نگار شوکت ورک اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں۔۔۔۔ پکوان انسٹیٹوٹ آف امریکہ میں داخل کرادیا فارغ التحصیل ہونے کے بعد فاطمہ علی کے پاکستانی کھانوں کی پورے امریکہ میں دھوم مچ گئی اور ہر امریکن کی خواہش ہوتی تھی کہ وہ اس کے پکے ہوئے کھانے سے لطف اندوز ہو۔ فاطمہ علی نے امریکہ کے بڑے بڑے مشہور ریستورانوں میں کام کیا اور کھانے کے کئی بڑے مقابلوں اورکئی ٹیلیویژن شوز میں انعامات حاصل کیے مگرشومئی قسمت کہ اسے Carcinoma (کینسر) ہوگیا اور اب وہ اپنی زندگی کے آخری سال میں ہے اس کی زندگی کی آخری خواہش تھی کہ وہ دنیا کے بہترین ریستورانوں میں عمدہ، لذیز اور اچھے اچھے کھانے کھائے اس کی اس خواہش کے مدنظر امریکہ کے ایک ٹیلیویژن شو میں اسے مدعو کیا گیا اور اسے اپنی خواہش کی تکمیل کے لیے 50ہزار امریکی ڈالرز (تقریباً 60لاکھ روپے پاکستانی) دیے گئے تاکہ وہ اپنی زندگی کے آخری سال میں اپنی خواہش کی تکمیل کر سکے۔فاطمہ علی کی یہ دلسوز کہانی مجھے یوں یاد آئی کہ اگلے روز پاکستان کو ایٹمی اور میزائل قوت بناکر ناقابل تسخیر بنانے والے ہمارے قومی ہیرو اور محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان جو ایک خدا ترس اور درد مند دل رکھنے والی شخصیت ہیں نے مجھے انگریزی کے ایک اخبار کا تراشہ بھیجا جس میں Carcinoma (کینسر)کی ایک مریضہ رابعہ سرفراز کا تذکرہ ہے اور ڈاکٹر صاحب کا ارشاد ہوا کہ اس پر ایک کالم لکھا جائے اور رابعہ سرفراز کے علاج کے لیے مخیر حضرات سے تعاون کی درخواست کی جائے رابعہ سرفراز کے حوالے سے تفصیل کچھ یوں ہے کہ 23سالہ رابعہ سرفراز جو لاہور کی رہنے والی ہیں جن کے والد کا ان کے بچپن ہی میں انتقال ہوگیا تھا جس کے باعث انہیں مشکلات نے گھیر لیا مگر انہوں نے اولوالعزمی اور ثابت قدمی کا ثبوت دیتے ہوئے اپنی تعلیم جاری رکھی اور بی کام کرنے میں کامیاب ہوگئی اور ایک بینک میں ملازمت اختیار کر لی بینک کی ملازمت کے تھوڑے ہی عرصے بعد ان کو تکلیف محسوس ہوئی اور وہ ایک ہسپتال گئیں جہاں ان کی صحیح تشخیص نہ ہوسکی اور ان کی سرجری کر دی گئی اور کہا گیا کہ وہ کچھ دنوں بعد دوبارہ چیک اپ کرائیں۔اس کے بعد انہوں نے دوبارہ بینک میں آکر معمول کا کام شروع کردیا کہ ایک روز اچانک ان کی طبیعت بہت زیادہ خراب ہوگئی اور وہ فرش پر گر پڑیں جس پر بینک انتظامیہ نے ان کی تشویشناک حالت دیکھ کر ان کی والدہ کو بلایا اور انہیں گھر لے جانے کا کہا بعد کی تشخیص سے معلوم ہوا کہ رابعہ سرفراز کو کینسر ہوگیا ہے جب رابعہ سرفراز نے اپنے بینک کی انتظامیہ سے علاج کے اخراجات برداشت کرنے کی استدعا کی تو انہیں بتایا گیا کہ ان کی مدت ملازمت کم ہونے کے باعث بینک کی پالیسی کے مطابق ان کی علالت کے اخراجات بینک ادا کرنے سے قاصر ہے یہاں سے مایوسی کے بعد وہ شوکت خانم کینسر ہسپتال گئیں اور انتظامیہ سے مفت علاج کی درخواست کی اور انہیں یہ کہہ کر انکار کردیا گیاکہ ہم مرض کے شروع میں کسی دوسرے ہسپتال سے علاج کرانے والے مریض کا مفت علاج نہیں کرتے ہاں اگر مریض اپنے علاج کے اخراجات خود برداشت کرے تو علاج کیا جا سکتا ہے جب ہسپتال کی انتظامیہ سے اخراجات کی رقم دریافت کی گئی تو انہوں نے تقریباً سولہ لاکھ روپے کی خطیر رقم کا بتایا جو رابعہ سرفراز کی دسترس سے باہر ہے۔یہاں اس امر کا اظہار بھی بے جا نہ ہوگا کہ علالت کے باعث رابعہ سرفراز کو بینک کی نوکری سے بھی برخاست کر دیا گیا جب کہ وہ چار افراد پر مشتمل اپنے کنبہ کی واحد کفیل ہیں۔ رابعہ سرفراز کے علاوہ اس کے کنبہ میں عمر رسیدہ والدہ کے علاوہ دو چھوٹے بھائی ہیں اور کمانے والا کوئی نہیں اس وقت وہ کسی رحم دل انسان کی طرف سے دی گئی ایک چھوٹی سی جگہ میں رہائش پذیر ہے اور اس علاقے کے لوگوں کے تعاون سے جو کچھ میسر ہوتا ہے زندہ رہنے کے لیے وہ اس پر گزارہ کررہے ہیں۔ عزت دار ہونے کے باعث وہ کسی کے آگے ہاتھ بھی نہیں پھیلا سکتی اور اس وقت اسے علاج کے لیے 16لاکھ روپے کی اشد ضرورت ہے۔ زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا رابعہ سرفراز کسی مسیحا کی منتظر ہے جو اس کے علاج کے اخراجات برداشت کر لے۔ جس طرح امریکہ میں مقیم لوگوں نے ایک پاکستانی نژاد فاطمہ علی کی ایک خطیر رقم سے مدد کرنے کا جو اچھا کام کیا ہے تو پاکستان میں بھی ایسے مخیر حضرات کی کمی نہیں جو ایک جواں سال اور اعلیٰ تعلیم یافتہ دوشیزہ کو سولہ لاکھ روپے کے عوض موت کے شکجنے سے باہر نکال سکتے ہیں۔آپ اگر یکمشت سولہ لاکھ روپے کی رقم ادا نہیں کر سکتے تو اپنا حصہ ضرور ڈالیے اور اپنے حلقہ احباب میں شامل مخیر حضرات سے اس سلسلہ میں رابطہ کریں اور انہیں ترغیب دیں کہ وہ اس بات کو پھیلائیں تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس کار خیر میں حصہ لے سکیں۔ امید واثق ہے کہ اللہ رب العزت اس میں ہماری ضرور مدد فرمائے گا اور ہم انسانیت کے نام پر ایک نوجوان دوشیزہ کو چند روپوں کے عوض موت کے منہ سے بچانے میں کامیاب ہوجائیں گے ۔ رابعہ سرفراز کی والدہ شمیم آرا کے موبائل نمبر0322 4849936 پر رابطہ کرکے آپ اس معصوم پڑھی لکھی لڑکی کو اپنے تعاون سے کینسر کے موذی مرض سے نجات دلانے کے لیے اس کی ضرور مدد کریں تا کہ وہ موت کو شکست دے سکے۔