counter easy hit

لڑکی بولی : تم فوراً حسن کو فون کر کے بتاؤ کہ ہم پکڑے گئے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔محمود الرشید کے بیٹے کے خلاف کیس کی اصل اور اندرونی کہانی سامنے آ گئی

لاہور (ویب ڈیسک ) تحریک انصاف کے نامور سیاستدان اور صوبائی وزیر محمودالرشید کے بیٹے کیخلاف کیس کے حوالے سے پولیس کے ایک ذمہ دار ذریعہ نے بتایا کہ کیس کا رخ موڑا جا رہا ہے ، پولیس شدید دباؤ کا شکار ہے ، محمود الرشید کے بیٹے کے خلاف کیس کی اصل کہانی یہ ہے کہ

نامور صحافی امداد حسین بھٹی روزنامہ جنگ کے لیے اپنی ایک رپورٹ میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ جس وقت پولیس نے ویرانے میں کھڑی گاڑی کو مشکوک سمجھ کر چیک کیا جس کی پارکنگ لائٹ جل رہی تھی تو پولیس کو معلوم ہوا کہ کار میں کوئی موجود ہے لیکن پولیس کی جانب سے کار کو ’’ناک‘‘ کرنے کے باوجود کسی نے دروازہ نہیں کھولا جس پر پولیس نے اپنا روایتی طریقہ استعمال کیا اور جیسے ہی کار کا دروازہ کھولا پولیس اہلکار عثمان نے کار میں موجود لڑکا اور لڑکی کو باہر آنے کا کہاتاہم جب وہ باہر نہ آئے تو پولیس کو معلوم ہوا ہے کہ کار میں موجود لڑکا اور لڑکی نیم برہنہ ہیں جس پر پولیس نے ان کی نیم برہنہ حالت میں ویڈیو بنالی جس پر لڑکی نے لڑکے کوکہا کہ تم حسن کو فون کرو وہ اس وقت’’ ٹی پارٹی‘‘ میں موجود ہے۔جس پر صوبائی وزیر کے بیٹے کو اس کے دوست جس کا نام علی بتایا جاتا ہے، اس نے کال کی اور کہا کہ پولیس نے ان کی نازیبا ویڈیو بنالی ہے اس لئے وہ انہیں آکر بچائیں جس پر حسن اور اس کے دو دوست اپنی کاروں پر موقع پر پہنچے۔ یہ ایسی جگہ تھی جہاں سیف سٹی کے کیمرے نہیں تھےاور یہ کاریں اسی طرح کھڑی کی گئیں کہ ان کا نمبر ٹریس نہیں ہوسکتا تھا لہٰذا صوبائی وزیر کے بیٹے نے آتے ہی پولیس کے ساتھ مبینہ بدتمیزی کی اور اس کے دوستوں نے پولیس سے رائفلز، وائرلیس اور ان کے موبائل فونز چھین لئے۔ اس دوران صوبائی وزیر کے بیٹے کی کار میں ایک پولیس اہلکار عثمان سعید کو ڈال کر اسے مین بلیوارڈ کی طرف لے گئے اور وہاں اس کا اپنے موبائل سے اعترافی بیان ریکارڈ کیا اور انہیں چھوڑ دیا،جنگ کو باوثوق ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ اس لڑکی کا نام (س)سے شروع ہوتا ہے،تاہم جیسے ہی صوبائی وزیر نے پریس کانفرنس کی پولیس نے چپ کا روزہ رکھ لیا،ذرائع کا کہنا ہے کہ پریس کانفرنس کے بعد پولیس افسران کی جانب سے متعلقہ پولیس افسران اور پولیس اہلکاروں کو بتا دیا گیا کہ میڈیا کو کوئی بیان نہیں دینا، اس حوالے سے انچارج انوسٹی گیشن اسلم سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے جواب دینے کی بجائے کہا کہ میں بہت مصرو ف ہوں۔ اس حوالے سے کیس کے مدعی پولیس اہلکار ندیم اقبال سےرابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ وہ ڈی آئی جی کو پیش ہونے لگے ہیں اس کے بعد بیان دیں گے۔