counter easy hit

فضل الرحمٰن ان ایکشن عمران حکومت ڈائون

مجھے تو لگتا ہے مولانا فضل الرحمن موجودہ سیاسی صورتِ حال کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔اُن پر ایک ہی جنون سوار ہے کہ کسی طرح حکومت کے خلاف تحریک چلے اور وہ گھر چلی جائے۔اس مقصد کے لئے وہ خاصے پاپڑ بیل رہے ہیں،لیکن دال گل نہیں رہی۔

مثلاً نواز شریف کو وہ کانٹوں پر گھسیٹنا چاہتے ہیں ۔۔۔ جو آدمی طبی بنیادوں پر چھ ہفتے کے لئے ضمانت پر ہے، اُسے سیاست میں سرگرم کردار ادا کرنے کی طرف راغب کرنے کی کوشش کرنا کوئی مولانا فضل الرحمن جیسا مرد خود آگاہ ہی کر سکتا ہے؟ اس وقت شریف خاندان کو اِس بات کے لالے پڑے ہیں کہ نواز شریف کا علاج ہو اور ساتھ ہی اس بات کی بھی فکرہے کہ چھ ہفتے بعد اگر علاج مکمل نہ ہوا اور ضمانت میں توسیع بھی نہ ہوئی تو کیا بنے گا؟ اس نزاکت کو سمجھنے کی بجائے مولانا فضل الرحمن صرف یہی چاہتے ہیں کہ باقی سب کچھ رک جائے، بس تحریک چل پڑے۔اب انہوں نے آصف علی زرداری سے ملاقات کر کے انہیں آمادہ کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ نواز شریف سے ملاقات کریں۔ آصف علی زرداری نواز شریف سے مل بھی لیں تو نواز شریف کو تحریک چلانے کے لئے راضی کرنا فی الوقت ممکن نظر نہیں آتا۔ اول تو آصف علی زرداری یہ قدم نہیں اٹھائیں گے، کیونکہ وہ سیاسی طور پر خاصے منجھے ہوئے کھلاڑی ہیں اور یہ جانتے ہیں کہ موجودہ حالات میں حکومت کے خلاف تحریک چلانا اور وہ بھی مسلم لیگ(ن) سے مل کر اس پیغام کو سچ ثابت کر دے گا کہ یہ سب اپنا مال بچانے کے لئے اکٹھے ہو رہے ہیں۔مولانا فضل الرحمن کی خواہش اپنی جگہ، تاہم حقیقت یہ ہے کہ ملک میں ایسی فضا موجود نہیں، جس میں کسی تحریک کا ڈول ڈالا جا سکے۔

 

 

اگرچہ حکومت اقتصادی طور پر عوام کو ریلیف دینے کی بجائے اُن پر مزید دباؤ ڈالنے کی حکمت عملی اختیار کئے ہوئے ہے،لیکن عوام ابھی یہ نہیں سمجھتے کہ اس بنیاد پر حکومت کی تبدیلی ہونی چاہئے۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کے بارے میں عوام کی رائے منفی ہو چکی ہے اور انہیں یہ امید نہیں کہ اگر موجودہ حکومت کی جگہ دوبارہ ان میں سے کسی کو موقع دیا جائے تو حالات بہتر ہو سکتے ہیں۔پھر اہم ترین بات یہ ہے کہ ملک میں غیر آئینی تبدیلی کا کوئی راستہ موجود نہیں۔ یہ باب اب مستقل طور پر بند ہو چکا ہے۔ اب صرف آئینی تبدیلی آ سکتی ہے اور اُس کا راستہ یہی ہے کہ اسمبلی کے اندر حکومت کے خلاف تحریک اعتماد کامیاب ہو جائے، جس کا دور دور تک کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مولانا فضل الرحمن بھی پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ن) کو یہ آپشن استعمال کرنے کے لئے آمادہ نہیں کر رہے، بلکہ وہ سڑکوں پر جدوجہد کے ذریعے حکومت کا خاتمہ چاہتے ہیں، جو موجودہ حالات میں ممکن نظر نہیںآتا۔ پیپلزپارٹی، مسلم لیگ(ن) اور دیگر اپوزیشن جماعتیں اگر مل جائیں تو وہ خواب بآسانی پورا ہو سکتا ہے، جو مولانا فضل الرحمن کو بے چین کئے ہوئے ہے،لیکن وہ تو آصف علی زرداری اور نواز شریف کی ملاقات تک کرانے میں کامیاب نہیں ہو پا رہے۔اس بات پر کیسے آمادہ کریں گے کہ حکومت کو تحریک عدم اعتماد لا کر چلتا کیا جائے۔وزیراعظم عمران خان کی باڈی لینگویج اس امر کی شاہد ہے کہ وہ اس قسم کی کسی کوشش سے پریشان نہیں،کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ اب فوج کی طرف سے کوئی دباؤ نہیں آئے گا،

چاہے کوئی دھرنا دے یا تحریک چلائے۔ غیر آئینی تبدیلی کے لئے ہمیشہ تحریکیں اور دھرنے ہوتے تھے۔ وگرنہ پارلیمینٹ کے ہوتے ہوئے کوئی حکومت کیسے وقت سے پہلے ختم کی جا سکتی ہے۔آصف علی زرداری بھی جب حکومت کو گھر بھیجنے کی بات کرتے ہیں تو اُس کا مقصد صرف سیاسی دباؤ بڑھانا ہوتا ہے۔نواز شریف تو خود اس بات کا واویلا کرتے رہے ہیں کہ حکومتوں کو وقت سے پہلے ختم کرنے کی سازش کیوں کی جاتی ہے۔۔۔ وہ کیسے یہ مطالبہ کر سکتے ہیں کہ حکومت کو اسٹیبلشمنٹ ختم کر دے یا فوج کی چھڑی کرتب دکھائے۔ سو بات تو بالکل واضح ہے کہ حکومت ماضی کی دو حکومتوں کی مانند اپنی آئینی مدت پوری کرے گی۔اس کے سوا کوئی انہونی ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔ اب تو فوج اور حکومت کے تعلقات انتہائی مضبوط اور خوشگوار ہیں۔ آج کل تو یہ سوچنا بھی احمقانہ بات ہو گی کہ فوج عمران خان کی حکومت کو گھر بھیجنے میں مدد کرے گی، فوج نے تو اُس وقت بھی حکومت کو گھر نہیں بھیجا جب ماضی قریب میں دو وزیراعظم نااہل ہوئے اور نظام چلتا رہا، اسمبلیاں برقرار رہیں اور انہوں نے اپنی پانچ سالہ مدت پوری کی۔یہ حکومت پانچ سالہ مدت کیوں پوری نہ کرے؟ اس کا مولانا فضل الرحمن کے پاس کوئی مسکت جواب موجود نہیں۔یہ کہنے سے تو بات نہیں بنے گی کہ عمران خان ایک یہودی ایجنٹ ہے، جسے ایک خاص منصوبے کے تحت پاکستان پر مسلط کیا گیا ہے۔ ایسے بیانات اور اقدامات تو اب بری طرح پٹ چکے ہیں،

پھر کٹھ پتلی وزیراعظم اور مسلط کردہ وزیراعظم کہنے سے بھی عوام متاثر نہیں ہوتے۔ وہ تو اس بات پر نظر رکھے ہوئے ہیں کہ وزیراعظم عمران خان خود ایماندار ہیں اور کرپشن کے خلاف انہوں نے علم بلند کیا ہوا ہے، وہ ملک کو مشکلات سے نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں،اور عوام اُن کے اخلاص پر شک بھی نہیں کرتے۔ عوام کوئی بہت اچھا وقت چھوڑ کر نہیں آئے، مشکلات تو انہیں ماضی میں بھی درپیش رہی ہیں، اب وہ ایک امید باندھے ہوئے ہیں کہ عمران خان ضرور ملک کی حالت بدلنے میں کامیاب رہیں گے۔ مولانا فضل الرحمن پچھلے چند ماہ سے خاموش بیٹھے تھے، کیونکہ انہیں کوئی راستہ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ اب جبکہ وہ دیکھ رہے ہیں کہ نیب کیسوں کے ہاتھوں شریف خاندان اور آصف علی زرداری فیملی خاصی پریشان ہیں، تو انہوں نے سوچا لوہا گرم ہے چوٹ لگائی جائے، شاید بات بن جائے، مگر وہ یہ بات بھول گئے ہیں کہ اُن میں نوابزادہ نصر اللہ خان جیسی صلاحیت نہیں کہ کسی تحریک کو منظم کر سکیں، پھر اب تک وہ اپنی خواہش کردہ تحریک کا کوئی ایجنڈا بھی سامنے نہیں لا سکے۔ سوائے اس جنون کے حکومت کو چلنے نہیں دینا۔ ایجنڈے کے بغیر کون سی تحریک کامیاب ہوئی ہے۔ پھر وہ راستہ کیا ہے جس کے ذریعے حکومت کا قلع قمع کرنا ہے۔ کیا عمران خان سے توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ کسی دباؤ کے نتیجے میں استعفا دے دیں گے۔ ہاں اگر وہ خود چاہیں کہ بڑی اکثریت حاصل کرنے کے لئے عوام کے پاس جانا چاہئے تو اسمبلی توڑنے کا آپشن استعمال کر سکتے ہیں۔آصف علی زرداری اور نواز شریف کے پاس حکومت مخالف تحریک چلانے کی گنجائش فی الوقت نہ ہونے کے برابر ہے۔ انہیں کچھ اور مسائل اور چیلنجز درپیش ہیں،جنہیں مولانا فضل الرحمن سمجھنے سے قاصر ہیں۔ وہ اپنی اس خواہش کے تابع ہیں کہ یہ دونوں بڑے رہنما سب کچھ بھلا کر اُن کے ایجنڈے کی حمایت کریں۔گویا آصف علی زرداری اور نواز شریف اپنی سیاسی بصیرت استعمال نہ کریں، بلکہ مولانا کے اشاروں پر لنگر لنگوٹ کس کر میدان میں آ جائیں۔ ایسا ممکن نہیں، لیکن مولانا پھر بھی اس ناممکن کو ممکن بنانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔