counter easy hit

بجلی کا بحران۔ پانی کی سنگین قلت اور حقیقت کیاہے؟

Electricity Crisis

Electricity Crisis

تحریر: غلام مرتضیٰ باجوہ
بزرگ کہتے ہیں کہ سچ بولو کیونکہ ایک جھوٹ کو چھپانے کیلئے ہزار بار جھوٹ بولنا پڑے گا۔ اب زمانہ بدل گیاہے۔ اس لئے سیاستدان کہتے ہیں سچ بولنے کی ضرورت نہیں۔ کیونکہ سچ پرکوئی اعتبار نہیں کرتا۔ حسب روائت بتایا جا رہا ہے کہ پانی کی قلت سنگین مسئلہ ہے ہمیں ملکی بقا کیلئے پانی کو محفوظ رکھنا ہوگا، بجلی بحران پر تو تین سال میں قابو پالیں گے مگر پانی کا مسئلہ طویل مدتی ہے یہ دو تین سال میں حل نہیں ہوگا جس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، حکومت پانی ذخیرہ کرنے کی استعداد میں اضافے اور چھوٹے بڑے ڈیموں کی تعمیر کے جامع طویل المدتی منصوبہ بندی کر رہی ہے کیونکہ پاکستان تیزی سے پانی کے قحط والی صورتحال کی طرف بڑھ رہا ہے۔ آبی ذخائر کی تعمیر ہمارے لئے زندگی موت کا مسئلہ ہے پانی کا ضیاع بہت زیادہ ہے جس کی وجہ سے 7 سال بعد پانی کا قحط آجائے گا۔ دیامیر بھاشا ڈیم منصوبے کے لئے زمین کے حصول کیلئے 100ارب روپے جاری کر دئیے گئے ہیں، بین الاقوامی پارٹنرز نے بھی اس منصوبے کی تکمیل میں دلچسپی ظاہر کی ہے، ہمیں جس طرح دہشت گردی کے خاتمے کیلئے نیشنل ایکشن پلان کی ضرورت ہے وہاں ملک کو درپیش بحرانوں سے نمٹنے اور قومی ایشوز کے حل کیلئے نیشنل ایکشن پلان ضروری ہے۔ پانی اور بجلی کی قلت ماضی کی بدانتظامی کا نتیجہ ہے۔ ان خیالات کا اظہار وفاقی وزیر پانی وبجلی خواجہ محمد آصف نے سائوتھ ایشیا واٹر اینیشیٹو انڈس فورم کے تیسرے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر چیئرمین واپڈا ظفر محمود، وزیر مملکت و بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کی چیئرپرسن ماروی میمن، چیئر پرسن ڈبلیو ای ایف نثار اے میمن سمیت غیر ملکی وفود بھی موجود تھے۔ خواجہ محمد آصف نے کہا کہ بھارت کے ساتھ پانی کے مسائل کو انڈس واٹر کمیشن سندھ طاس معاہدہ کے مطابق ڈیل کرتا ہے بھارت کے ساتھ پانی کے مسائل معاہدے کے مطابق حل ہوں گے اگر بھارت نے کہیں انکروچمنٹ کی تو حکومت اس معاملے کو دیکھے گی۔ پاکستان بھارت کے ساتھ آبی تنازعات حل کرنا چاہتا ہے اگر بھارت نے ہمارے آبی حقوق کی خلاف ورزی کی تو ہم اپنا مقدمہ مناسب فورم پر لڑیں گے۔ ہمیں جس طرح بجلی کی بچت کی ضرورت ہے اسی طرح پانی کے ضیاع کو روکنا بھی ضروری ہے۔

بدقسمتی سے ہماری واٹر مینجمنٹ کاسٹ ریکوری صرف 20 فیصد ہے اور 80 فیصد ریکوری نہیں ہوتی، ہمارا آبپاشی کا طریقہ فلڈ اری گیشن ہے جسے تبدیل کر کے ڈرپ اری گیشن کا طریقہ اپنانے کی ضرورت ہے۔ ٹیوب ویل سے پانی نکالنے پر 3000 روپے جہاں لاگت آتی ہے وہاں اگر ہم نہری پانی استعمال کریں تو 100 روپے کا پڑتا ہے۔ گھریلو استعمال کے پانی سے جو ریکوری ہوتی ہے اس سے بھی نظام کو برقرار نہیں رکھا جاسکتا۔ ہر سال بدترین سیلاب آرہے ہیں مگر ہمارے پاس پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش موجود نہیں ہم اگر پاکستان میں آبی ذخائر بنانے کا سوچتے ہیں تو یہ معاملات گزشتہ 30، 40 سالوں سے سیاسی مفادات کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں جمہوری اور آمر حکمرانوں کے ادوار میں بھی ان مسائل کا حل نہ نکالا جا سکا۔ ہم تیزی سے پانی کے قحط والی صورتحال کی طرف بڑھ رہے ہیں جس کا مقابلہ کرنے کیلئے ہم تیار نہیں قومی سطح پر بھی اس مقصد کا ادراک نہیں۔ حکومت جامع طویل المدتی پلان پر عمل پیرا ہے جس سے پانی کے ذخیرہ کی استعداد میں اضافہ ہو گا اور چھوٹے بڑے ڈیم بھی تعمیر کئے جائیں گے۔ حکومت دیامیر بھاشا ڈیم پر کام کر رہی ہے جس کیلئے 100 ارب روپے مالیت سے زائد کی زمین خریدی جا رہی ہے۔

وفاقی وزیر پانی وبجلی خواجہ محمد آصف کے خطاب سے ماہرین اتفاق نہیں کرتے کیونکہ گزشتہ کئی سالوں کی طرح نالہ ڈیک نے 2014ء میںتباہی مچادی۔نالہ ڈیک جموں و کشمیر سے ضلع سیالکوٹ کی حدود میں شامل ہو تا ہے۔ اور ہرسال انتظامیہ تقربیاً ایک ہی رپورٹ جاری کرتی ہے۔ اور متاثرین حکومتی امداد کے منتظر رہتے ہیں۔ اگربات کی خبروں اور مقامی انتظامیہ کی رپورٹس کے حوالے سے تو معلوم ہوگا۔یہ صرف اورصرف کاغذی کارروائی تک محدودہیں۔ گزشتہ 20 سال میں صرف فائدہ چند بااثرافراد کو ہواہے۔ باقی سب کارروائی تک محدودہے۔ گزشتہ 20 سال میں ایک ہزارسے زائد انسان اور لاکھوں جانور اور اربوں روپے کی فصل نالہ ڈیک اور قلعہ احمد آباد کے پل کی نذر ہو چکی ہیں۔ قلعہ احمدآبادکا پل ضلع نارووال اور سیالکوٹ کو ملتاہے۔ جہاں لاکھوں افراد روزانہ سفرکرتے ہیں۔سیالکوٹ سے تعلق رکھنے اور کروڑوں روپے سالانہ فنڈر لینے والے وفاقی وزیر پانی خواجہ محمد آصف بھی شائد اس کا جواب وہ عوام کو بھی نہ دیں سکیں۔

کیونکہ ایک رپورٹ کے مطابق گوجرانوالہ ڈویڑن صوبہ پنجاب کی ایک انتظامی تقسیم تھی۔سن 2000 ء کی حکومتی اصلاحات کے نتیجے میں اس تیسرے درجے کی تقسیم کو ختم کر دیا گیا۔ گوجرانوالہ شہر اس کا ڈویڑنل ہیڈکوارٹر تھا۔ 1981ء کی مردم شماری کے مطابق اسکی آبادی 7،522،352 اور یہ 17،206 مربع کلومیٹر کے علاقے پر محیط تھا۔ 1998ء کی مردم شماری کے مطابق اسکی آبادی 11،431،058 تقریبا چار ملین بڑھ گئی۔ 2008ء کے عام انتخابات کے بعد پنجاب نے اسکے آٹھ ڈویڑنوں کو بحال کر دیا۔ یہ ڈویڑن ضلع گوجرانوالہ، گجرات، سیالکوٹ، حافظ آباد، منڈی بہاؤالدین، نارووال شامل ہیں۔ ضلع گوجرانوالہ کی چار تحصیلوں میں تحصیل گوجرانوالہ، کامونکی، نوشہرہ ورکاں، وزیر آباد شامل ہیں۔ضلع گجرات کی تین تحصیلوں میں تحصیل کھاریاں، گجرات، سرائے عالمگیر شامل ہیں ضلع سیالکوٹ کی چار تحصیلوں میں تحصیل پسرور، ڈسکہ، سیالکوٹ، سمبریال شامل ہیں۔ ضلع حافظ آباد کی دو تحصیلوں میں تحصیل پنڈی بھٹیاں، حافظ آبادشامل ہیں۔ضلع منڈی بہاؤالدین کی تین تحصیلوں میں تحصیل پھالیہ، منڈی بہاؤالدین، ملکوال شامل ہیں۔ ضلع نارووال کی تین تحصیلوں میں تحصیل نارووال، شکرگڑھ اور ظفروال شامل ہیں۔ یہ صورتحال اپنی جگہ ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان تما م رپورٹس پروفاقی اور صوبائی حکومت کو نوٹس لینا چاہیے۔ پاکستان کبھی بھی خطابوں اور پریس کانفرنسوں سے ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہو گا۔ گزشتہ کئی سالوں سے پاکستانی قوم صرف جھوٹ سن کر پراعتماد تھی کہ شائد آج ہماری قسمت بدل جائے۔ لیکن اب صورتحال بدل چکی ہے۔ جس کیلئے مسلم لیگ ن کی قیادت کوعملی اقدامات اٹھانے پڑیں گئے۔ ورنہ آئندہ متوقع بلدیاتی انتخابات میں دھرنا پارٹی کی کامیابی یقین ہوگی۔

Ghulam Murtaza Bajwa

Ghulam Murtaza Bajwa

تحریر: غلام مرتضیٰ باجوہ