counter easy hit

علیؑ کی بیٹی سلام اللہ علیہ، سلام تُم پر!“

3 فروری 5 جمادی الاوّل کو بنتِ باب اُلعِلمؓ، پیغمبرِ اِنقلاب کی نواسی سیّدہ زینبؓ کا یومِ ولادت تھا۔ کل صبح میرے چھوٹے بھائی محمد علی چوہان اور نمازِ جمعہ سے قبل اُس کے بچپن کے سرگودھوی دوست ثناءخوانِ اہلِ بَیت عزیزم سیّد رضا علی کاظمی نے اِسلام آباد سے مجھے ٹیلی فون پر یاد دِلایا تو مجھے ندّامت ہُوئی کہ مَیں سیّدہ زینبؓ کی سیرت و کردار پر کالم لِکھنے میں ایک دِن لیٹ ہوگیا۔ 3 فروری کو ہی مَیں نے ”نوائے وقت“ کے مِلّی ایڈیشن میں سیّدہ زینبؓ کے بارے میں قائدِ تحریکِ نفاذِ فِقّہ جعفریہ، آغا سیّد حامد علی شاہ موسوی کا فکر انگیز مضمون پڑھا۔ آغا جی! نے اپنے مضمون میں یہ بھی لِکھا کہ ”حکیم اُلاُمّت علاّمہ اقبالؒ نے آپ (بی بی زینبؓ) کی عظمت کا یوں اعتراف کِیا ہے کہ….
”حدیثِ عِشق، دو باب اَست، کربلا و دَمِشق
یکے حُسینؓ رقم کرد، دیگرے زینبؓ!“
یعنی ”عِشقِ کی حدیث (ارشاداتِ رسول) کے دو باب ہیں۔ ایک نواسہ¿ رسول نے میدانِ کربلا میں لِکھا اور دوسرا دمشق میں (دربارِ یزید میں انتہائی جُرا¿ت کا مظاہرہ کرتے ہُوئے) سیّدہ زینبؓ نے“۔ میرے آباﺅ اجداد کا تعلق بھارت کے صوبہ راجستھان کے شہر اجمیر سے تھا۔ اُنہیں حضرت خواجہ مُعین اُلدّین چشتیؒ کے دستِ مُبارک پر ہی اسلام قبول کرنے کا شرف حاصل ہُوا تھا۔ حضرت خواجہؒ صاحب نے حضرت امام حسینؓ کی عظمت کی شمع کو روشن کرتے ہُوئے اہلِ ہند کو بتایا تھا کہ….
”شاہ ہست حُسینؓ، پادشاہ ہست حُسینؓ
دِیں ہست حُسینؓ، دِیں پناہ ہست حُسینؓ
سَر دَاد، نداد، دَست دَر دَستِ یزِید
حقّا کہ بِنائے لا اِلہ، ہست حُسینؓ“
یعنی ”ہمارے شاہ اور بادشاہ حضرت امام حسینؓ ہیں۔ دِین اسلام اور دین کی پناہ بھی وہی ہیں۔ آپؓ نے دِین کی بقّا کےلئے اپنا سر قلم کروا لِیا (لیکن خلافت کے نام پر) یزید کی ملوکیت قبول نہیں کی۔ حقیقت میں امام حسینؓ کلمہ¿ طیبّہ (اسلام) کی بنیاد ہیں“۔ قیامِ پاکستان سے پہلے بانی¿ پاکستان حضرت قائداعظمؒ سے صحافیوں نے پوچھا کہ ”آپ شیعہ ہیں یا سُنّی؟“ تو قائداعظمؒ نے کہا کہ ”مَیں تو ایک عام مسلمان ہُوں لیکن ہر سال 21 رمضان اُلمبارک کو ہم سب مسلمان یومِ شہادتِ علیؓ مِل کر مناتے ہیں“۔ 25 دسمبر 2013ءکو یومِ قائداعظمؒ کے موقع پر ایوانِ کارکنانِ تحریکِ پاکستان لاہور میں ڈاکٹر مجید نظامی صاحب کی صدارت میں منعقدہ تقریب میں میری نظم کا مطلع تھا/ہے۔
”نامِ محمد مصطفےٰ، نامِ علیؓ، عالی مقام
کِتنا با برکت ہے؟ ہمارے قائدِ اعظمؒ کا نام“
”مصّورِ پاکستان“ علامہ اقبالؒ نے اپنے فرزند ڈاکٹر جسٹس (ر) جاوید اقبال (مرحوم) کو جوانی میں تلقین کی تھی کہ ”اہلِ سُنت کے مسلک پر قائم رہو لیکن، اہلِ بیتؑ اور آئمہ اطہارؓ کا احترام لازمی ہے“۔ گذشتہ سال 31 جنوری کو، شام کے داراُلحکومت دمشق میں حضرت بی بی زینبؓ کے مزار کے قریب کار بم دھماکے ہُوئے، پھر خُود کُش حملہ آوروں نے خود کو اُڑا لِیا تھا۔ 60 سے زیادہ لوگ شہید اور بہت سے زخمی ہو گئے تھے۔ بین اُلاقوامی اور پاکستانی نیوز چینلوں پر بھی دھماکوں کی خبر سُنوائی اور مزارِ مقدس کے ارد گرد متاثرہ علاقوں کے مناظر بھی دکھائے گئے تھے اور پھر کہا گیا تھا کہ ”دھماکوں کی ذمہ داری دہشت گرد تنظیم داعش نے قبول کر لی ہے“۔ اُن دِنوں اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل (جنوبی کوریا کے) جناب بانکی مون تھے۔ اُنہوں نے غیر مسلم ہونے کے باوجود مزارِ سیّدہ زینبؓ کے قریب دھماکوں کی بھر پور مذّمت کی تھی۔
”اِسلامیہ جمہوریہ پاکستان“ میں برسر اقتدار مسلم لیگ ن، اُس کے اتحادی جماعتوں اور اپوزیشن جماعتوں کے قائدین نے خاموش رہنا ہی مناسب خیال کِیا۔ یہاں تک کہ حضرت فاطمة اُلزہرا ؓکی نسبت سے فاطمی کہلانےوالے وزیراعظم کے مُشیر امورِ خارجہ سیّد طارق فاطمی اور وزیراعظم کے مُشیرِ خارجہ جناب سرتاج عزیز اور اُن کی وزارتِ خارجہ نے چُپ کا روزہ رکھنا مناسب سمجھا۔ صِرف آغا سیّد حامد علی شاہ موسوی کی سربراہی میں تحریک نفاذِ فقہ¿ جعفریہ اور اہلِ تشیع کی کچھ دوسری تنظیموں نے احتجاجی جلسوں، جلوسوں اور ریلیوں کا اہتمام کِیا۔ گویا مزارِ سیّدہ زینبؓ کی بے حُرمتی کا مسئلہ صِرف شیعہ مسلمانوں کا تھا۔
سیّدہ زینبؓ کا نام نبی کریم نے رکھا تھا۔ امام حسینؓ اپنی بڑی بہن کی بہت عِزّت کرتے تھے۔ جب سیّدہ زینبؓ اُن کے پاس تشریف لاتِیں تو آپؓ کھڑے ہو جاتے اور اُنہیں اپنی جگہ پر بٹھاتے۔ شہادتِ حسینؓ کے بعد مدینہ سے کربلا اور کربلا سے شام تک شُہدائے کربلا کی بیواﺅں اور اُن کے یتیم بچوں کو اپنی سرپرستی میں لے کر سیّدہ زینب کا سفر، کوفہ اور شام کے بازاروں میں اُن کی تقریروں، یزید کے دربار میں فصیح و بلیغ خطبوں اور برجستہ جوابات کے بارے میں مو¿رخین لِکھتے ہیں کہ ”ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا حضرت علی مرتضیٰؓ خطبہ دے رہے ہیں “۔
علاّمہ اقبالؒ، قائداعظمؒ اور ڈاکٹر مجید نظامی کے مسلک کے مطابق میرا راستہ بھی اپنے جدّی پُشتی پیر و مرشد حضرت خواجہ غریب نواز کے بتائے ہُوئے ارشادات کی روشنی کے مطابق ہے۔ مَیں نے نعت ہائے رسول کے علاوہ مولا علی مرتضیٰؓ، حضرت امام حسینؓ سیّدہ زینبؓ، حضرت امام زین اُلعابدینؓ اور خواجہ غریب نوازؒ کی منقبتیں لِکھیں۔ 21 دسمبر 2001ءکو نیو یارک میں میرے بڑے بیٹے ذوالفقار علی چوہان کو اللہ تعالیٰ نے فرزندِ اوّل شاف علی چوہان عطا کِیا تو میری نظم کا مطلع تھا….
”اللہ، اللہ ! ساڈے گھروِچّ، خُوشِیاں دا سامان، آیا اے
پنجتن پاکؑ دے صدقے، رانا شاف علی چوہان، آیا اے“
مارچ 2016ءکو ڈاکٹر مجید نظامی کی بیٹی بی بی رمیزہ مجید نظامی کی اویس ذکریا عزیز سے شادی ہُوئی تو اُن کےلئے میری دُعائیہ نظم کا پہلا بند تھا….
”تجھ پر، رحمتِ ربّ دوامی
سایہ¿ پنجتن پاکؑ گرامی
خُوشبوئے مدنی و تِہامی
بی بی رمِیزہ، مجِید نظامی“
مَیں نے 2007ءمیں سیّدہ زینبؓ کی جو منقبت لِکھی اُس کا ٹِیپ کا مِصرع تھا ”علیؓ کی بیٹیؓ، سلام تُم پر“۔ منقبت کے دو بند ہیں….
”خُدا کی رحمت، مَدام تُم پر
رِدائے خَیراُالاَنام تُم پر
بتُول کا نُورِ تام تُم پر
علیؓ کی بیٹیؓ سلام تُم پر“
….O….
”مُلوکِیت جیسے، غم کدہ تھی
یزِیدیت، زلزلہ زدہ تھی
ہے ختم، زورِ کلام تُم پر
علیؓ کی بیٹیؓ سلام تُم پر“
….O….
سیّدہ زینبؓ کے یومِ ولادت اور یومِ وِصال کے موقع پر یا جب بھی کسی حوالے سے آپؓ کا نام آتا ہے تو مجھے اُن کی تقلید میں جمہوریت کےلئے محترمہ فاطمہ جناحؒ کی جدوجہد کا دَور یاد آجاتا ہے ۔ ڈاکٹر مجید نظامی صاحب نے اُنہیں ”مادرِ مِلّت“ کا خطاب دے کر جنوری 1965ءکے صدارتی انتخاب میں فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کے مقابلے پر آمادہ کِیا تھا۔ مَیں سرگودھا میں ”نوائے وقت“ کا نامہ نگار تھا۔ اور مَیں نے پنجاب کے مختلف شہروں کے عوامی جلسوں میں اپنے نام ”فاطمہ“ کی لاج رکھتے ہُوئے مادرِ مِلّت کی گھن گرج دیکھی لیکن آج بھی میرے ذہن میں سیّدہ زینبؓ کےلئے اپنی منقبت کا ٹِیپ کا مصرع گونج رہا ہے کہ….
”علیؓ کی بیٹیؓ، سلام تُم پر!“

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website