counter easy hit

جے آئی ٹی کے نتائج پر حملے نہ کریں دستاویزات کا جواب دیں، سپریم کورٹ

اسلام آباد: سماعت کے دوران جسٹس عظمت سعید نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ جے آئی ٹی کے نتائج پر حملے نہ کریں بلکہ ان کی دستاویزات کا جواب دیں۔
Do not attack on JIT results Answered the documentation, Supreme Court

Do not attack on JIT results Answered the documentation, Supreme Court

سپریم کورٹ میں جسٹس اعجاز افضل کی سربراہی میں پاناما عملدرآمد کیس کی چوتھی سماعت شروع ہوگئی۔ وزیر اعظم کے بچوں کے وکیل سلمان اکرم راجہ اپنے دلائل دے رہے ہیں۔ سماعت کے آغازمیں عدالت کی جانب سے برہمی کا اظہارکیا گیا اورریمارکس میں کہا گیا کہ دستاویزات بعد میں عدالت میں جمع کرائی گئیں اورمیڈیا پرپہلے آئیں جس پرسلمان اکرم راجہ نے اپنے دلائل میں کہا کہ میں نے اپنے طورپرجلد دستاویزات جمع کرانے کی کوشش کی جس پر جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ آپ نے دستاویزات وقت پرجمع کرانے کا کہا تھا، تمام دستاویزات میڈیا پرزیر بحث رہیں، جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ ایک خط قطری شہزادے کا ہے جب کہ جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس میں کہا کہ آپ نے میڈیا پر اپنا کیس چلایا جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ میڈیا پر دستاویز میری طرف سے جاری نہیں کی گئی۔ جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ باہر میڈیا کا ڈائس لگا ہے، وہاں دلائل بھی دے آئیں، جسٹس اعجاز الاحسن ن ریمارکس دیئے کہ ایک دستاویز قطری شہزادے اور ایک برٹش ورجن آئی لینڈ سے متعلق ہے جب کہ جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ دونوں دستاویزات عدالت میں ہی کھولیں گے، تمام دستاویزات لیگل ٹیم نے ہی میڈیا کو دی ہوں گی، جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ قطری خط میں کیا ہے یہ علم نہیں، قطری خط میں کیا ہے یہ علم نہیں۔ جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس میں کہا کہ اطمینان سے آپ کی بات سنیں گے۔

جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ جے آئی ٹی نے متعلقہ حکام سے تصدیق کروانا تھی، مریم کے وکیل نے عدالت میں منروا کی دستاویزات سے لاتعلقی ظاہر کی جس پر سلیمان اکرم نے کہا کہ جے آئی ٹی نے یو اے ای کے خط پر نتائج اخذ کیے، یو اے ای کے خط پر حسین نوازسے کوئی سوال نہیں پوچھا گیا جب کہ حسین نواز کی تصدیق شدہ دستاویزات کو بھی نہیں مانا گیا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ مریم نواز کے وکیل نے عدالت میں منروا کی دستاویزات سے انکار کیا تھا جس پر وکیل سلمان اکرم نے کہا کہ جے آئی ٹی نے دبئی حکام کے جواب پر حسین نواز سے جرح نہیں کی،   یو اے ای کے محکمہ انصاف کے خط کو دیکھ لیں جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ آپ نے جو دستاویزات دیں، جے آئی ٹی نے ان کی محکمہ انصاف سے تصدیق کرائی جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ دبئی کی دستاویزات بارے حسین نواز سے پوچھا جانا چاہیے تھا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس میں کہا کہ متحدہ عرب امارات سے بھی حسین نواز کی دستاویزات کی تصدیق مانگی گئی تھی۔

سماعت کے دوران سلمان اکرم راجہ نے یو اے ای کی وزارت انصاف کا خط پڑھ کرسنایا اور کہا کہ یو اے ای حکام نے گلف سٹیل ملز کے معاہدے کا ریکارڈ نہ ہونے کا جواب دیا، 12 ملین درہم کی ٹرانزیکشنزکی بھی تردید کی گئی، خط میں کہا گیا کہ مشینری کی منتقلی کا کسٹم ریکارڈ بھی موجود نہیں جس پر جسٹس عظمت سعید  نے ریمارکس میں کہا کہ یو اے ای حکام نے کہا تھا یہ مہر ہماری ہے ہی نہیں۔ وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ کچھ غلط فہمی ہوئی ہے جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ حسین نواز اور طارق شفیع سے پوچھا تو انہوں نے کہا ہم نے نوٹری نہیں کرایا، سب نے کہا یہ نوٹری مہر کو نہیں جانتے، اس کا مطلب یہ دستاویزات غلط ہیں، پوچھا گیا تھا کہ حسین نواز نے نوٹری پبلک سے تصدیق کروائی، حسین نواز نے جے آئی ٹی کو بتایا تھا کہ وہ دبئی نہیں گئے پھرکس نے نوٹری پبلک سے تصدیق کروائی، اس سے تو یہ دستاویزات جعلی لگتی ہیں جس پر سلمان اکرم نے کہا کہ حسین نواز کی جگہ کوئی اور نوٹری تصدیق کے لیے گیا تھا، جے آئی ٹی نے حسین نواز پر جرح نہیں کی جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ ہم آپ سے پوچھ رہے ہیں اپنا موقف ہمیں بتا دیں جس پر سلمان اکرم نے کہا کہ یو اے ای حکام سے سنگین غلطی ہوئی ہو گی۔ جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ آپ کو چاہیے تھا تمام ریکارڈ جے آئی ٹی کو فراہم کرتے، اب آپ نئی دستاویزات لے آئے ہیں، اب دیکھتے ہیں کہ ان کے کیس پراثرات ہوں گے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ 12 مئی 1988 اور30 مئی 2016 کے دونوں نوٹری پبلک کودبئی حکام نے جعلی قرار دیا، دبئی حکام نے دبئی سے اسکریپ جدہ جانے کی تردید کی جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ یہ سکریپ نہیں مشینری تھی، جے آئی ٹی نے غلط سوال کیے جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ اگر دبئی میں اندراج نہیں ہوتا تو دبئی کے محکمہ کسٹم کی کیا ضرورت ہے جس پر سلمان اکرم راجا نے کہا کہ ایک ریاست سے دوسری ریاست سامان لے جانے کا اندراج نہیں ہوتا۔ جسٹس اعجاز الاحسن  نے ریمارکس دیئے کہ کیا مشینری کی ترسیل کی دستاویز مصدقہ ہے جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ عدالت مہلت دے تو مصدقہ دستاویز بھی دے سکتا ہوں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ آپ کی دی گئی دستاویز میں میٹریل کی تفصیل شامل نہیں، جسٹس عظمت سعید   نے ریمارکس دیئے کہ یہ کیس کب سے شروع ہوا ہے، آدھا حصہ بتاتے ہیں جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ جب سوال اٹھایا جاتا ہے تو دستاویز لے آتے ہیں۔ سلمان اکرم نے کہا کہ مشینری کی منتقلی پر پہلے کسی نے شک و شبہ کا اظہار نہیں کیا جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ خلا کو وقت کے ساتھ پرکیا گیا، جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ ان دستاویز کو جے آئی ٹی رپورٹ کے جواب میں لایا گیا یہ نقطہ ہم نے نوٹ کر لیا۔ جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ آپ ٹائی ٹینک کی دستاویز لے آئیں تاکہ ہم مان لیں، نجی دستاویز میں تو یہ بھی لکھا جا سکتا ہے کہ سامان ٹائی ٹینک میں گیا، کوئی مصدقہ دستاویز لائیں، آپ کو لکھ کر دے دیتا ہوں کہ نتائج کی کوئی حیثیت نہیں اور حیثیت ہے تو ان کے میٹیریل کی ہے۔

جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ جے آئی ٹی کے نتائج پرحملے نہ کریں اور ان کی دستاویزات کا جواب دیں، جس پرسلمان اکرم راجہ نے کہا کہ عزیزیہ اسٹیل مل کا بینک ریکارڈ بھی موجود ہے جس پرعدالت کی جانب سے ریمارکس دیئے گئے کہ کیا فروخت کے وقت عزیزیہ پر کوئی بقایا جات تھے جس پر سلمان اکرم نے کہا کہ جو بقایا جات تھے وہ ادا کر دیئے گئے، عدالت نے ریمارکس دیئے کہ دستاویزات کے مطابق 21 ملین ریال عزیزیہ کی فروخت کے وقت بقایا جات تھے، جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ یہ دستاویزات ذرائع سے حاصل کی گئی تھیں، جے آئی ٹی نے قرار دیا کہ عزیزیہ سٹیل مل 63 ملین ریال کی بجائے 42 ملین ریال میں فروخت ہوئی، 63 ملین ریال کی رقم عزیزیہ کے اکاؤنٹ میں آئی جس کا بینک ریکارڈ موجود ہے جس پر جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ یہ بینک ریکارڈ لے آئے ہیں تو دوسرا بھی لے آئیں جس پر سلمان اکرم نے کہا کہ نقطہ یہ ہے کہ 63 ملین میرے اکاؤنٹ میں آئے اس سے آگے چلنا ہے جس پر جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ میری جان یہ اتنا آسان نہیں ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ کیا عزیزیہ کے واجبات کسی دوسرے نے ادا کئے کس پر وکیل نے کہا کہ معلوم کرکے بتا سکتا ہوں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ حسین ، عباس اور شہباز شریف کی بیٹی عزیزیہ کے حصہ دار تھے، جسٹس عظمت سعید نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ کیس کی تاریخ یہ ہے کہ خفیہ جگہوں سے ادائیگیاں ہوتی ہیں جس پر سلمان اکرم نے کہا کہ جے آئی ٹی کوچاہئے تھا کہ ان پرسوالات کرتی۔ جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ کیا اخبار میں اشتہار دے کر سوال پوچھتے، جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ تین حصہ دار تھے صرف حسین نواز نے عزیزیہ فروخت کی، کیا حسین نوازپہلے دونوں حصہ داروں کے شیئرز خرید چکے تھے، حسین نواز نے پاور آف اٹارنی آج تک جمع نہیں کرائی جس پر سلمان اکرم نے کہا کہ میرا یہ کہنا ہے کہ یہ ایک خاندانی معاملہ تھا جس کا تحریری جواب موجود نہیں جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ پہلے تو کہا گیا تھا پاور آف اٹارنی موجود ہے۔ سماعت کے باعث سپریم کورٹ کے اطراف میں سیکورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں جب کہ ریڈزون میں عام شہریوں کا داخلہ بند ہے۔

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website