counter easy hit

جب ظالم مظلوم کہلانے لگے

 Daas

Daas

تحریر:عدیل اسلم
ایک گاؤں میں دو چوہدری رہا کرتے تھے۔ دونوں کے کئی جانثار ملازم تھے۔ایک چوہدری گاؤں کے مغرب میں قیام پذیرتھا جبکہ دوسرے کو قدرت نے مشرقی حصہ عنایت کیا۔ شروع شروع میں مغربی حصے کے چوہدری کے پاس ملازموں کی تعداد کافی زیادہ تھی اور شاید اسے اسی بات کامان تھا کہ میں دوسرے سے برترہوں اوراسی لیے وہ مشرقی حصے میں اکثر وبیشتر چھیڑچھاڑ کرتا رہتا تھا۔ کبھی کامیابی ہوتی توکبھی مشرقی چوہدری کے جانثاروں سے منہ کی کھانی پڑتی۔ اکثریت کے اس گھمنڈ نے اسے تکبر میں مبتلا کر رکھا تھا۔ پورے گاؤں پہ اپنا طوطی بلوانے کا شوق اسے اندر ہی اندر کھائے جارہاتھا جس وجہ سے وہ کسی حد تک چڑچڑا ہوچکا تھا۔ اس کے برعکس مشرقی چوہدری کافی ملنسار تھا اور اپنے جانثاروں اور خدمتگاروں میں کافی عزت کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔ اس کی یہ عاجزی مغربی حصے میں بھی چرچا پانے لگی اورمغربی چوہدری کی مختلف النوع تراکیب کے باوجود اس کے ملازموں میں کمی ختم ہونے میں نہ آئی اور وہ دوسرے چوہدری کے پاس ملازمت اختیار کرنے لگے۔

اندر ہی اندر ابلتے لاوے نے چوہدری مغرب کو مجبور کردیااور اس نے اپنے اوپر بھی شائستگی کالبادہ اوڑھا لیا اورامن وامان کا”خواہاں” ہوگیا۔تب بھی بات نہ بنی تو اس نے اپنے چند ملازموں سے مل کر مشرقی چوہدری کے خلاف ایک پراپیگنڈہ تیارکیااور اس کی توہین اور بے عزتی کرنا شروع کردی۔ مشرقی چوہدری کے جانثاروں نے اس بات پر احتجاج کیا۔کچھ عرصہ گزرا تو گاؤں ایک انتہائی زلزلے کی زد میں آگیا۔

معلوم ہواکہ چوہدری مغرب کے وہ ملازم جو توہین کرنے میں پیش پیش تھے،مارے گئے اور مغربی چوہدری اس کاالزام مشرقی چوہدری پہ تھوپ رہا ہے۔ پنچائت بٹھانے کافیصلہ ہوا۔ دوبندے مشرقی چوہدری کی طرف سے آئے،دومغربی والے کی طرف سے اور ایک غیر جانبدار تھا۔ معاملہ فی الحال 3 ووٹوں کے ساتھ مغربی چوہدری کے حق میں ہے۔ غیر جانبدار آدمی کی وجہ سے نہیں،بلکہ مشرقی چوہدری کی طرف سے آنے والے دو پنچائیتیوں میں سے ایک پنچایتی اسی کی پیٹھ پیچھے چھرا گھونپنے پہ تلاہواہے اورمغربی چوہدری کاراستہ گاؤں کے مشرقی حصے میں ہموار کرنا چاہتاہے۔لہٰذا یہ ٹال مٹول سے کام لے رہاہے اور غیر جانبدار آدمی بھی اپناآدھا،آدھا ووٹ دونوں کے پلڑے میں ڈال رہاہے۔ دیکھئے! کہاں تک پہنچتاہے یہ معاملہ۔

ایک تھاشہر جسے لوگ”جی وی (G.V)”کے نام سے پکارتے تھے۔ اس شہر میں صرف دوہی ٹاؤن تھے۔ ایک لیفٹ(Left) اورایک رائٹ (Right)۔ لیفٹ ٹاؤن شہر کے بائیں جانب تھااور رائٹ دائیں جانب۔ آمدورفت جاری رہتی تھی۔ لیفٹ والے رائٹ ٹاؤن میں اور رائٹ والے لیفٹ ٹاؤن میں چہل قدمی کر لیا کرتے تھے۔ چہل قدمی کے ساتھ ساتھ دونوں ایک دوسرے کے ٹاؤن میں رہائش بھی اختیار کرنا چاہتے تھے۔

لیکن اس کا باقاعدہ ایک ضابطہ تھا۔رائٹ والے اس قاعدے پہ عمل کرتے ہوئے لیفٹ ٹاؤن میں رہائش پذیر ہورہے تھے اور بظاہر یوں نظر آرہاتھا کہ رائٹ ٹاؤن کاایریا(رقبہ) بڑھتا جارہا ہے۔ لیفٹ والے رائٹ ٹاؤن کو حقیر سمجھتے تھے۔ اس لیے وہاں کم ہی ”تشریف ”لاتے لیکن اللہ کاکرناایساہوا کہ رائٹ ٹاؤن میں خزانوں کے ڈھیرنکلناشروع ہوگئے جس سے لیفٹ والوں کے منہ میں پانی بھرآیا۔اب وہ رائٹ ٹاؤن کو حقیر کہہ چکے تھے۔ لہٰذا ادھرآبھی نہیںسکتے تھے اور یہ خزانہ چھوڑ بھی نہیں سکتے تھے سو لیفٹ والے بھی رائٹ میں آتے تھے لیکن دھونس جماکر اور اسلحہ ساتھ لے کر۔

علاوہ ازیں جب کوئی رائٹ ٹاؤن کارہائشی کسی لیفٹ ٹاؤن والے سے ملتاتووہ لیفٹ والا اسے طنز و مزاح کرتا اور اس کے بزرگوں کامذاق اڑاتا۔رائٹی کو غصہ تو بہت آتا لیکن لیفٹ ٹاؤن سے آئے ہوئے ”انکل دانشور” کی بات سن کر صبر کرناپڑتا کہ”بیٹا!آزادی ہے ان کو اس طرح کا کچھ بھی کہنے کی،لیکن تم مت کہنا۔”تھوڑے عرصے بعد معلوم ہوا کہ دو لیفٹی آپس میں لڑ پڑے ہیں تواب اس لڑکے نے ”انکل دانشور” سے سوال کیا کہ ”یہ کیوں لڑپڑے ہیں؟”تو”انکل دانشور” نے بڑی مشکل سے بتایا کہ ”وہاں ایک لڑکے نے دوسرے کے بزرگوں کی تضحیک کی ہے،تو وہ برداشت نہیں کرپایا اور دیکھو بیٹا!کوئی بھی برداشت نہیں کرپاتا۔ پہلے کو احتیاط کرنی چاہیے تھی لیکن دوسرا بھی اپنی جگہ ٹھیک ہے۔ ”

”انکل دانشور” تویہ کہہ کر چلے گئے لیکن لڑکا یہی سوچتا رہا کہ ”یہ کیسی آزادی ٔ اظہار رائے ہے جو صرف لیفٹ ٹاؤن والوں کو رائٹ ٹاؤن کے خلاف ہی استعمال کرنے کی اجازت ہے اور رائٹ والوں کواحتجاج کرنے کابھی حق نہیں۔”جی وی (GV)اس شہرکامخفف ہے۔

یہ ایک گاؤں اورایک شہر کی کہانی ہے۔آج ہماری اس دنیامیں جو رونما ہورہاہے،اسی کی عکاسی کرتی ہے۔ انتہائی معذرت کے ساتھ لیکن میں ان لوگوں سے عاجزی کے ساتھ اختلاف کرتاہوں کہ جوکہتے ہیں کہ ناموس رسالتۖ پر تمام مسلمان ایک پیج پہ آجاتے ہیں۔

ہمارے ہاں بھی کچھ ”انکل دانشور” ہیں جو ”حیدر” فلم میں”حیدرکے چچا” کا کردار(شعوری یاغیر شعوری طور پہ)ادا کررہے ہوتے ہیں یایوں کہہ لیجیے کہ مسلمانوں کے لیے نیشنل کانفرنس کی بنیاد رکھنے والے شیخ عبداللہ کی ڈمی بن جاتے ہیں۔بدوی والے معاملے کاتذکرہ کرکے خود کو انتہائی افسوس کے ساتھ مسلمان کہنے والے ”انکل دانشور” حضرات کے لیے میں کچھ خبریں ان کے گوش گزار کرنا چاہتا ہوں کہ جب وہ اخبار کے اس حصے پرپہنچتے ہیں تو ”دکھ اور ملامت” کے ساتھ آنکھیں ہی بند کرلیتے ہیں کہ امت کا درد لیے ہوئے بیچاروں سے یہ خبربرداشت نہیں ہوپاتی۔

رملہ: اسرائیل اہلکاروں کاجیل میں فلسطینی قیدیوں پر وحشیانہ تشدد۔ بھارت اویسی بھائیوں کا سرلاؤ، 2 کروڑ انعام پاؤ۔ بیت المقدس: مسجد اقصیٰ کو بم سے اڑانے کی خوفناک صیہونی سازش بے نقاب۔ فرانس: جنوبی فرانس میں مراکشی مسلمان قتل۔
واشنگٹن: مسیحی علما ء کی مخالفت، امریکی یونیورسٹی میں جمعہ کی اذان کی اجازت منسوخ۔ بھارت: بھارتی گجرات میں مسلم کش فسادات جاری،3 جاں بحق۔
فرانس: چارلی ایبڈو پرطنز کرنے والے کامیڈین کی گرفتاری۔

جی ہاں!یہ وہی”چارلی ایبڈو” ہے کہ جو فرانس میں تیزی سے پھیلنے والے اسلام کے لیڈر جناب حضرت محمدe کی (نعوذباللہ) گستاخی میں بدنام ہے۔اس پر حملہ ہوا اور ایڈیٹرسمیت کئی کارٹونسٹ بھی مارے گئے۔ حملہ صحیح ہوایانہیں،اس بابت کچھ بھی کہنے کے میں قابل نہیں لیکن مجھے یہاں نیوٹن کا حرکت کا تیسرا قانون یاد آگیا کہ
” Every action has a reaction” مجھے نہیں یاد پڑتاکہ ”چارلی ایبڈو” نے کبھی بھی اپنی ملعون حرکت پہ معافی مانگی ہو یا اس نے کبھی کچھ شائع کیا ہی نہ ہو۔بابانیوٹن کے مطابق تو یہReaction (ردعمل) تھااور اس کا Action (سبب) ڈھونڈنے کی ضرورت ہے۔ باباجی کے اس قانون کو اگر میں یوں بیان کروں تو بے

جانہ ہوگاکہ: No Reaction would be, if there is no Action
اورذاتی خیال میں اسی فقرے میں اس تمام مسئلے کا حل بھی موجودہے تو فرانس والے اگر یہ چاہتے ہیں کہ ان کی تاریخ کایہ اندوہناک ترین واقعہ پھرنہ ہو، تو انہیں اس بات کو یقینی بناناہے کہ ایسی خطرناک حرکت پھر نہ ہو۔ ایکشن نہیں ہوگا توری ایکشن بھی نہیں آئے گا۔ یہ واقعہ کس نے کیا؟اس متعلق بھی کافی تحقیق کی ضرورت ہے۔ ذمہ داریاں قبول کرنے والے معاملات کو بھی دنیامیں سوالیہ نظروں سے دیکھاجاتاہے اور یہ بھی بات بہرحال کچھ زبانوں پرہے کہ یہ واقعہ سی آئی اے یا فرانس کی اپنی حکومت کاشاخسانہ ہے۔ لیکن ہمارے ”انکل دانشور”اور ہماری پیٹھ میں چھراگھونپنے والے”پنچایتی” کچھ ایسے ہی مواقع کے لیے سرگرداں رہتے ہیں کہ جب یکطرفہ حقائق ان تک ”الہامی” ذریعے سے پہنچتے ہیں۔

پاکستان کے وزیراعظم نوازشریف صاحب کو تو یہ تک مشورہ دے دیاگیا کہ انہیں بھی فرانس میں ہونے والے ملین مارچ میں شرکت کرنی چاہیے تھی کہ جس میں فرانسیسی عوام نے وہی توہین آمیزخاکوں پہ مبنی بینرز اٹھا رکھے تھے۔ میں”اتفاق” کرتاہوں کہ انہیں بھی شرکت کرنی چاہیے تھی اور دنیا کو بالعموم اور ”چارلی ایبڈو” کو بالخصوص یہ جتلاتے کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں۔آزادیٔ اظہار رائے کی آڑ میں تم جو کچھ کررہے ہو،میں اس کو سراہتا ہوں اورحوصلہ افزائی کرتاہوں۔ دنیاکے تمام اسلامی ممالک کی امیدوں کے محور”پاکستان” کی جانب سے تمہیں کوئی پریشانی نہیں اٹھانی پڑے گی۔ جتنے خاکے شائع کرنے ہیں،کرو بلکہ کچھ خاکے یا”چارلی ایبڈو” کے رسائل تحفتاً ساتھ لے بھی آتے اوران ”انکل دانشور” حضرات کو دیتے کہ اپنے کالم کو تصویری بنائیے۔”

حدہے ڈھٹائی کی۔یہ لوگ مسلمانوں کو ناموس رسالتۖ کے معاملے پہ بھی توڑناچاہتے ہیں اور غالباً یہ ارادہ رکھتے ہیں کہ مسلمان اس معاملے پہ بھی آہستہ آہستہ بے حس ہوجائیں۔جیسے فلسطین پہ ہونے والے اسرائیلی مظالم، کشمیر اور گجرات وغیرہ میںہونے والے بھارتی مظالم پہ مسلمان بے حس ہوچکے ہیں۔ ان”انکل دانشور” اور ”پنچایتی” حضرات کی بات کو پاکستان میں ہی نہیں،یورپ میں بھی کافی اہمیت دی جاتی ہے اور انہیں چاہیے تھاکہ Reaction کو نہیں ایکشن کوختم کرنے کی بات کرتے۔ ری ایکشن خودبخود ختم ہوجاتا۔ نرالے باوا آدم والوں نے نرالاانداز اپنایا اور اسلام کومعذرت خواہانہ بنادیا۔یورپ میں بھی اس معاملے کی آڑ میں مظلوم دنیااور مظلوم دین کو ظالم بناکر پیش کیا جا رہاہے اور اس کے خلاف کریک ڈاؤن کی تیاریاں جاری ہیں۔ان سے بہتر تو وہ پاپ فرانسس رہ گیا کہ جس نے مرض کی نشاندہی توکی ۔

اس کے الفاظ قابل غور ہیں کہ: ”آزادیٔ اظہاررائے کی ایک حدہوتی ہے۔ میری ماں کے خلاف نازیبازبان استعمال کرنے والے کو میرا گھونسا کھانے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔” لیکن اس بار اللہ کاشکرہے کہ نواز شریف صاحب، پارلیمنٹ اور صدر پاکستان ان”انکل دانشوروں” کے داؤ پیچ سمجھ گئے۔ پارلیمنٹ کی قرارداد ایک مستحسن اقدام ہے۔ صدرصاحب کابیان بھی اس معاملے میں خوش آئندہے۔ اب حکومت کوچاہیے کہ اس معاملے کوبین الاقوامی فورم پہ ٹھنڈا نہ پڑنے دے اوراس بارے میں عالمی قوانین کونافذ کروائے۔OIC کو بھی اب متحرک کرنے کی ضرورت ہے کہ اکیلی اکیلی لکڑی توڑناآسان ہے لیکن لکڑیوں کے پورے گٹھے کو توڑنابہت مشکل ہے۔
عالمی طورپہ انتہاپسندی کی تشریح پہ نظرثانی کروائی جائے اور اس کی کسی بھی مذہب بالخصوص پرامن دین ”اسلام” کے ساتھ وابستگی کو ختم کروایاجائے کہ اب جو بھی انٹرنیشنل ڈکشنری آتی ہے،اس میں Fundamental اور Extremist کے مترادفات میں اسلام کو نمایاں کیا جاتاہے۔

علاوہ ازیں بی بی سی ”داعش” کے حوالے سے ایک ڈاکومنٹری Slaves of Caliphate بنار ہا ہے،اس کانام تبدیل کروایاجائے کہ تمام اسلامی ممالک نے بھی داعش کی مذمت کی ہے ۔لہٰذا خلافت کے نام کو بدنام نہ کیا جائے۔

تحریر:عدیل اسلم