counter easy hit

چارسدہ حملہ، افغانستان، بھارت اور ہم

Charsadda Attack

Charsadda Attack

تحریر : علی عمران شاہین
چارسدہ یونیورسٹی حملے کے بعد پاک فوج کے جوانوں نے فوری کارروائی کرتے ہوئے حملہ آوروں کو مار گرایا تو ساتھ ہی انکشافات ہونا شروع ہوئے کہ اس حملے کیلئے جہاں حملہ آوروں کو افغانستان سے بھیجا اور کنٹرول کیا گیا وہیں بھارت کی جانب سے حملہ آوروں کی مدد اور تعاون کا بھی کھل کر اظہار ہوا۔ اس سے پہلے پشاور میں بھی ایک دھماکہ ہوا جس میں ایک پولیس افسر سمیت متعدد افراد اس جہان فانی سے کوچ کر گئے۔ یہ حملے عین اس وقت ہوئے جب بھارتی وزیر دفاع منوہر پاریکر نے پٹھان کوٹ حملے کے بعد پاکستان کی تفتیشی ٹیم کے بھارت کے دورے کے حوالے سے کہا تھا کہ اسے بھارتی ہوائی اڈے میں داخل نہیں ہونے دیا جائے گا اور ساتھ ہی کہا کہ ہم دشمن کو سبق سکھائیں گے، اس کیلئے وقت اور جگہ کا تعین ہم خود کریں گے۔ وغیرہ وغیرہ۔ یہ کون نہیں جانتا کہ آج کے افغانستان میں امریکہ نے اسی بھارت کو انتہائی اہم کردار دے رکھا ہے۔ افغانستان کے کتنے شہروں میں بھارتی قونصل خانے اور علاقائی دفاتر کام کر رہے ہیں۔

بھارت ایک عرصہ سے اپنے تئیں اور امریکہ کے ذریعے سے پاکستان پر پھر دبائو ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے کہ وہ اسے افغانستان اور پھر وسط ایشیا تک زمینی راستے سے رسائی دے۔ بھارت ہی کی شہ پر افغانستان پاکستان کو دھمکیاں دیتا ہے کہ اگر اسے بھارت تک دو طرفہ آزاد رسائی نہ دی گئی تو وہ پاکستان کو وسط ایشیا تک نہیں جانے دے گا۔ بھارت کے مذموم عزائم ساری دنیا کے سامنے ہیں اور پاکستان میں معصوم شہریوں پر حملے کرنے اور دہشت گردی کرنے والوں کے بھارت سے تعلقات بھی کسی طور پوشیدہ نہیں۔ جب حالات اس ڈگر پر ہیں تو ہمیں بھارتی دشمنی کے حوالے سے آنکھیں کھول کر رکھنا ہوں گی۔

حملے کے بعد خلیفہ منصور نرے نامی ایک دہشت گرد کمانڈر کی ویڈیو منظر عام پر آئی جس میں اس نے برملا طور پر اس بات کا اقرار کیا کہ یہ حملہ انہوں نے کیا ہے اور وہ اب تعلیمی اداروں کو بھی نشانہ بنائیں گے اور وہ اس سلسلے میں کسی کی پروا نہیں کریں گے۔اگر یہ ویڈیو صحیح ہے اور دیکھنے سننے اور پرکھنے کے لحاظ سے بھی صحیح ہے تو اس کے بعد ایسے لوگوں کے ساتھ کسی قسم کی رو رعایت برتنے کے بارے میں سوچا بھی نہیں جانا چاہئے۔ ایسے لوگوں کو نہ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کا ظلم نظر آتا ہے اور نہ قبلہ اوّل ارض فلسطین پر یہودیوں کا قبضہ اور ظلم ہی نظر آتا ہے۔ یہ لوگ کفر کے ایجنڈے کے تحت اپنے ہی کلمہ گو بھائیوں کو قتل کرنا سب سے بڑی نیکی سمجھتے ہیں اور ان کی فکر اسلام اور مسلمانوں کے لئے سب سے زیادہ خطرناک ہے۔ ایسے ہی لوگوں کے بارے میں پیارے نبی محمد کریمۖ نے فرمایا تھا کہ اگر میں ان کو پائوں تو انہیں قوم عاد و ثمود کی طرح قتل کر دوں۔

چارسدہ یونیورسٹی پر حملے کے حوالے سے ہمارے دفاعی و عسکری اداروں کا کہنا ہے کہ وہ سارے معاملے کی تہ تک پہنچ چکے ہیں۔ اللہ کرے ایسا ہی ہو… تو ہم یہ سمجھتے ہیں کہ جس طرح اس حملے کے سہولت کاروں کو میڈیا پر لایا گیا ہے اسی طرح اس میں بھارت سمیت پاکستان دشمن عالمی سطح پر طاقتوں کا کردار واضح طور پر سامنے آنا چاہئے۔ ہمارے ملک کا ایک میڈیا گروپ اب جو کہہ رہا ہے کہ افغان سمیں پاکستان میں نہیں چلتیں یعنی یہاں اب بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو دشمن کے پروردہ اور ملک کی جڑیں کاٹنے والے ہیں، جب انہیں ہمارے ملک کے دوسرے میڈیا گروپ نے افغان سمیں چلا کر دکھائیں تو اس کا ان کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ اپنے ملک کے حوالے سے ہمیں اپنی پالیسیوں کو دیکھنا اور پرکھنا ہو گا اور جہاں جہاں بھی ہمارے دشمن آستین کے سانپ بن کر بیٹھے ہیں انہیں پاتال سے نکال کر انجام تک پہنچانا ہو گا۔ بھارت کے کشمیر میں مظالم ہوں یا بلوچستان کی شورش میں ملوث ہونے کے واقعات…۔

ہمیں عالمی سطح پر اس حوالے سے کھل کر مہم چلانا ہو گی۔ ہمیں یہ بھی سوچنا ہو گا کہ وہی افغانستان جسے ہم اول دن سے سپورٹ کر رہے ہیں اور جہاں استعمال ہونے والا سارا سامان خوراک تک بھی پاکستان سے جاتا ہے۔ جس ملک کے شہریوں کی ایک بڑی تعداد 40سال سے پاکستان میں مقیم ہے وہ ملک آخر کیسے اور کیونکر ہمارے ملک میں دہشت گردی کرنے والوں کو پناہ دے سکتا ہے اور انہیں دفاع مہیا کر سکتا ہے۔ افغانستان کا وجود پاکستان کے بغیر نہ پہلے ممکن تھا اور نہ آج ممکن ہے۔ دونوں ملک بے شمار قسم کے تعلقات، معاملات اور رشتوں میں جڑے ہوئے ہیں۔ پاکستان سے ہٹ کر افغانستان دنیا کے کسی دوسرے ملک کے ذریعے سے اپنے ملک کو ایک دن بھی نہیں چلا سکتا تو پھر ایسا کیوں ہے کہ ہم افغانستان جیسے ملک کے ہاتھوں یوں بے بس ہو جائیں کہ ہمارا ملک ہی خطرے سے دوچار نظر آئے اور ہم اس کے ناظم الامور کوبلا کر یوں احتجاج کرین کہ جیسے وہ سپر پاور سے بھی کوئی آگے کی چیز ہیں۔ ہمیں اس حوالے سے اپنی پالیسیوں اور معاملات کو دیکھناضروری ہے۔

افغانستان کو شہ دینے والا اور پاکستان کے خلاف کھڑا کرنے والا وہی بھارت ہی ہے، سو ہمیں اسی چور کی ماں کا بھی” علاج ”سب سے پہلے کرنا ہو گا۔ امریکہ سے خیر کی توقع ہمارے لئے ہمیشہ گھاٹے کا سودا رہا ہے۔ سو ہمیں امریکہ کی طرف بھی دیکھنا ترک کرنا ہو گا۔ امریکہ کو ہمارے سعودی عرب سے تعلقات پر شدید تشویش ہے۔ یہی امریکہ دہائیوں سے خود کو سعودی عرب کا اول نمبر کا اتحادی کہتے نہیں تھکتا تھا لیکن حقیقت میں وہ سعودی عرب کا سب سے بڑا دشمن تھا۔ اس کا تو اب کھل کر اظہار ہو چکا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ جان کیری کا ایٹمی پروگرام کے حوالے سے پاکستان اور سعودی عرب کو بیک وقت دھمکیاں دینا اس بات کی کھلی گواہی ہے کہ امریکہ دکھاتا دایاں تو مارتا بایاں ہے۔

یہ اللہ کا فضل ہے کہ پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کے خواب دیکھنے والے ہر میدان میں نامراد ہیں۔ مغرب میں کل تک پاکستان کو بنانا سٹیٹ اور جلد ہی ٹکڑوں میں بٹ جانے والا خطہ کہا جاتا تھا لیکن آج وہ ہماری طاقت اور استحکام کے معترف ہیں۔ پاکستان کی مسلح افواج اور سکیورٹی اداروں نے ہزاروں جانوں کی قربانی دے کر ملک کو مضبوط و مستحکم کیا تھا اب ہمیں اس حوالے سے کبھی کوئی کمزور قدم نہیں اٹھانا چاہئے۔ یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ عالم اسلام متحد ہو رہا ہے سعودی عرب کی قیادت میں 34ملکی عسکری اتحاد، سعودی عرب کا خطے میں ایک فعال اور عملی عسکری قوت بن کر سامنے آنا اور پاکستان کی اس سعودی عرب سے دوستی اور گہرا تعلق ہمارے دشمنوں کو سب سے زیادہ پریشان کر رہا ہے۔

مغربی طاقتیں اب سعودی عرب کی سب سے بڑی پیداوار یعنی تیل پر نقب لگا رہی ہیں اور پوری سازش سے تیل کی قیمتیں انتہائی کم کر کے سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک کو زچ کر رہی ہیں۔ ان حالات میں اگر مسلمان متحد رہے اور ان سازشوں کے خلاف متحد ہو کر میدان میں آتے رہے تو دیگر خطرناک سازشوں کی طرح یہ سب بھی نامراد ہی ہو جائے گا۔ہمیں مسئلہ کشمیر کو بھی پوری قوت سے اٹھانا اور سامنے لانا ہو گا۔ سارے کشمیری اس وقت خون کی ندیاں بہا کر پاکستانی پرچم لہرا رہے ہیں اور مسئلہ کشمیر دنیا بھر میں ایک فلیش پوائنٹ بن چکا ہے۔

اپنے ملک کے استحکام، بھارتی دہشت گردی اور سازشوں کے توڑ کیلئے مسئلہ کشمیر کی بھرپور وکالت بھی ہمارے دفاع میں اہم ترین کردار ادا کر سکتی ہے۔ کشمیریوں کے خون سے ہمیں سب سے بڑھ کر وفاداری نبھانا ہو گی جنہوں نے ہم سے وفاداری کا حق ادا کر کے ہر روز اس کا مظاہرہ دنیا کے سامنے رکھا ہوا ہے۔ اگر ہم اپنے حقیقی دشمنوں کو سمجھ کر اپنی پالیسیاں بنائیں اور آگے بڑھیں گے تو وہ دن دور نہیں جب دیگر بے شمار سازشوں کی طرح یہ سازش بھی انجام تک پہنچے گی اور پاکستان مضبوط اور ساری دنیا کے مسلمانوں کا حقیقی رہبر اور نجات دہندہ بھی بن سکتا ہے۔

Ali Imran Shaheen

Ali Imran Shaheen

تحریر : علی عمران شاہین
0321-4646375