counter easy hit

کسی مرد کو بلائو

اس رپورٹ کے بارے میں ہم پہلے ہی بات کر چکے ہیں لیکن یہ ہے ہی اتنی خوفناک کہ اس کا ذکر بار بار کیا جانا چاہئے تاکہ وہ حکمران جو صرف یہ جانتے ہیں کہ سڑکوں کے جال بچھانے کو ترقی کہا جاتا ہے اس خوفناک حقیقت کا ادراک کرسکیں۔ رپورٹ یہ بتاتی ہے کہ پاکستان میں بڑھتی ہوئی عمر کے 45فیصد سے زائد بچے غذائی قلت کا شکار ہیں۔ صرف پنجاب میں اسکول جانے والے ایک کروڑ 10لاکھ بچوں میں سے نصف طلبہ کے قد ان کی عمر سے کم ہیں۔ ان بچوں کی ذہنی نشوونما بھی دوسرے صحت مند بچوں کی نسبت کم ہے۔ رپورٹ یہ بھی بتاتی ہے کہ پورے ملک میں مجموعی طور پر 2کروڑ طلباء خوراک کی ضروریات پوری نہیں کر پارہے جس کے نتیجے میں ان کی جسمانی اور ذہنی نشوونما متاثر ہورہی ہے۔ غذائی ماہرین کے مطابق یہ صورتحال انتہائی تشویشناک ہے۔ یہ رپورٹ کسی عام سے غیر سرکاری ادارے نے مرتب نہیں کی بلکہ یہ ورلڈ بنک کی مرتب کردہ ہے۔ اس عالمی ادارے نے ان اعداد و شمار کو پاکستان کی نوجوان نسل کے لئے سنگین خطرہ قرار دیا ہے۔ رپورٹ بتاتی ہے کہ بڑھتے ہوئے بچوں کی نامناسب خوراک کی بدولت ان کی ذہنی اور جسمانی صورتحال میں خرابی کی بنا پر ملک کا مستقبل غیر محفوظ ہاتھوں میں ہونے کے مترادف ہے۔ ورلڈ بنک کے صدر نے بھی نوجوانوں میں غذا کی شدید کمی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے مسئلے پر قابو نہ پاسکنے کو ’’شرمناک‘‘ قرار دیا ہے۔ اس مسئلے کو جب دوسرے غذائی ماہرین کے سامنے رکھا جائے تو وہ یہی بتاتے ہیں کہ اس طرح کی صورتحال اگرچہ حکمرانوں کے سامنے بار بار لائی جاتی رہی ہے لیکن ان کی توجہ شاید دوسرے مسائل کی طرف زیادہ ہے۔ وہ لوگ جو پہلے ہی صحت اور تعلیم ایسے منصوبوں سے رقم نکال نکال کر اورنج ٹرین ایسے مہنگے اور بے کار منصوبوں پر لگا رہے ہیں وہ اس حقیقت کا ادراک کرنے سے قاصر ہیں کہ یہ صورتحال مستقبل میں کتنی خوفناک ثابت ہوسکتی ہے۔

ابھی ہم دو کروڑ ان بچوں کی بات کررہے ہیں جو اس وقت غذائی قلت کے باعث ذہنی طور پر پست رہ سکتے ہیں۔ ہم ان کروڑوں بچوں کی بات نہیں کررہے جو گزشتہ کئی برسوں سے اس طرح کی پالیسیوں کی بدولت جوان ہو کر جسمانی اور ذہنی طور پر پست ہو چکے ہیں۔ یہ لوگ اب اسکولوں سے نکل کر کالجوں اور یونیورسٹیوں تک پہنچ چکے ہیں لیکن ایک تو ان کی نامناسب خوراک کی بدولت اور دوسرے ان کی ناقص تعلیم کی وجہ سے جب یہ فارغ التحصیل ہو چکیں گے تو ان کا کیا مستقبل ہوگا؟ اور پھر ان کے ہاتھوں میں آیا ہوا پاکستان کیسا ہوگا؟ اس طرف سوچنے کی شاید ان لوگوں کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں ہے جو یوں تو ہر محفل میں اقبال اور فیض کا کلام گا گا کر حاضرین کو سناتے ہیں لیکن عملی طور پر کچھ نہیں کرتے۔
جناب ضمیر جعفری نے لکھا کہ؎
حضرت اقبال کا شاہیں تو کب کا اُڑ چکا
اب کوئی اپنا مقامی جانور پیدا کرو
ان بہت سے نوجوانوں کو بھی بتایا گیا ہوگا کہ اقبال اپنے نوجوان مسلموں سے کیا توقع رکھتا تھا لیکن ان کے سامنے اقبال کے خواب رکھنا بھینس کے سامنے بین بجانے کے مترادف ہوگا۔ اس لئے کہ یہ نوجوان تو جسمانی طور پر اور نہ ہی ذہنی طور پر اس خواب کو سمجھ سکتے ہیں۔ اس خواب پر عمل کر کے اقبال کا شاہین بننا تو دور کی بات ہے۔
اس رستے سے دور ہٹے ہوئے لوگ ہی گائوں اور ضلع کی سطح پر انتظامی کمیٹیاں بنا رہے ہیں، ممبران منتخب ہورہے ہیں اور پھر دیہات اور ضلعوں کی سطح پر اساتذہ بن رہے ہیں۔ یہ کس طرح کا انتظام چلا رہے ہیں اورکیسی تعلیم دے رہے ہیں ہمیں بے شمار سروے اس بارے میں بتاتے ہیں لیکن یہ جو پنچایت کی سطح پر آکر ایسے لوگ ایسے فیصلے کرتے ہیں جس میں کسی بچی کو اس کے کسی خاندان کے فرد کی غلطی کی بنا پر سزا دی جائے کہ اسے دوسری پارٹی کے مردوں کے سپرد کر دیا جائے جو اسے اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنائیں اس کی وجہ بھی شاید یہی ہے جس کی طرف ورلڈ بنک کی رپورٹ اشارہ کررہی ہے۔ ہم ابھی ایک صدمے سے نکلتے ہیں کہ ایک اور واقعہ ہمیں دکھ میں مبتلا کردیتا ہے۔ ایک واقعہ پر چند دن اس کی بازگشت سنائی دیتی ہے اور پھر بجائے اس کے کہ اس طرح کے واقعات کی تہہ میں جا کر حقائق جانے جائیں حکمران پھر وہی سڑکوں اور ٹرینوں کے جال کی باتیں شروع کردیتے ہیں، ملک میں مشکل کا دور آئے تو عوام کو پکار کر کہا جاتا ہے کہ آپ قربانی کے لئے تیار رہیں اور خود عوام ان کی مثال تو اس کہاوت ایسی ہے جو مجھے ایک دوست نے بھجوائی ہے۔ ’’بادشاہ کی آل اولادوں میں خیر سے سبھی لڑکیاں تھیں، کچھ سالوں بعد خیر سے ایک لڑکا پیدا ہوا۔ اب پورے محل میں وہی ایک لڑکا تھا باقی سب شاہی خاندان کی لڑکیاں، کنیزیں اور خواجہ سرا، شہزادے کی پرورش اسی ماحول میں ہورہی تھی۔ ایک دن اچانک محل میں آگ بھڑک اٹھی جسے بجھانے والا کوئی مرد نہیں تھا۔ شور مچ گیا، سبھی عورتیں چلانے لگیں کسی مرد کو بلائو، کسی مرد کو بلائو اور ان آوازوں میں سب سے بلند آواز اس
شہزادے کی تھی جو چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا کسی مرد کو بلائو‘‘۔ ہمارے حکمران اور عوام سب گویا اسی شہزادے کی مانند کسی مرد کے آنے کا انتظار کررہے ہیں۔ ایسے ہی کسی شہزادے نے سندھ کے مسائل کے حل کے لئے نئے گورنر صاحب کا انتخاب کیا ہے، باقی دیکھئے آگے کیا ہوتا ہے۔

 

بشکریہ جنگ

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website