counter easy hit

چوہدری نثار اور ملک ریاض دونوں پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں

راولپنڈی: راولپنڈی میں صوبائی اسمبلی کا حلقہ پی پی 12 ماضی میں کئی سالوں تک سابقہ صوبائی وزیرِ قانون راجہ بشارت اور راولپنڈی کے سابق چئیرمین ضلع کونسل چوہدری افضل کاہلوں کے خاندانوں کی سیاسی کشمکش کا مرکز رہا ہے۔ تاہم 2013ء کے عام انتخابات کے بعد سے یہ حلقہ سابقہ وفاقی وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان اور ملک کے مشہور پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض کے درمیان سیاسی چپقلش کا محور بنا ہوا ہے۔

Both Chaudhry Nisar and Malik Riaz are not ready to step backالیکشن کمیشن کی جانب سے کی جانے والی حالیہ حلقہ بندیوں سے قبل اس حلقے کا نمبر پی پی 6 تھا۔ یہ راولپنڈی تحصیل میں چکلالہ کے علاقوں لکھن، دھمیال، دھماں سیداں، جراہی اور دیگر آبادیوں پر مشتمل ہے۔حلقے کی بیشتر آبادی دیہی علاقوں پر مشتمل ہے جہاں لکھن، دھمیال، راجپوت الپیال اور راجہ بڑی برادریاں ہیں۔ راجپوت الپیال برادری سے تعلق رکھنے کے باعث چوہدری نثار یہاں اچھا خاصا اثرو رسوخ رکھتے ہیں۔دوسری جانب سینٹر چوہدری تنویر کے بھائی چوہدری افضل کا شمار بھی حلقے کے تگڑے سیاستدانوں میں ہوتا ہے۔ان کے حریفوں میں دھمیال گاؤں کے مشہور سیاسی گھرانے سے تعلق رکھنے والے محمد بشارت راجہ ہیں جو دو مرتبہ رکنِ صوبائی اسمبلی منتخب ہونے کے ساتھ ساتھ ضیاء کے دورِ حکومت میں راولپنڈی ضلع کونسل کے چیئرمین بھی رہ چُکے ہیں۔راجہ بشارت کے بھائی محمد ناصر راجہ اور کزن سابق تحصیل ناظم حامد نواز راجہ ان کی بھرپور حمایت کرتے ہیں۔2002ء کے عام انتخابات میں نون لیگ نے اس حلقے سے افضل خان کے داماد راجہ ارشد محمود کو ٹکٹ دیا جو قاف لیگ کے راجہ بشارت کو شکست دے کر رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے۔اس انتخابی مہم میں ان کے سسر افضل خان اور سینٹر تنویر نے ان کی بھرپور حمایت کی۔بعد ازاں راجہ بشارت کو قاف لیگی قیادت سے بہتر تعلقات کی بنیاد پر پرویز الہی کی خالی کردہ نشست پی پی 110 گجرات سے دوبارہ ضمنی الیکشن لڑوایا گیا جس میں انہیں کامیابی ملی۔2003ء میں انہیں صوبائی وزیر قانون کا کلیدی عہدہ سونپا گیا۔2008ء کے انتخابات میں اس حلقے سے چوہدری افضل کے بیٹے چوہدری سرفراز افضل نے نون لیگ کے ٹکٹ پر کامیابی سمیٹی۔ ان کے مقابلے میں راجہ بشارت کو بھاری مارجن سے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔خیال رہے کہ ان انتخابات میں چوہدری نثار قطاً یہ نہیں چاہتے تھے کہ اس حلقے کا ٹکٹ سینٹر تنویر کے حمایت یافتہ اُمیدوار کو ملے لہذا انھوں نے اچھے تعلقات کی بنا پر افضل کاہلوں کے بیٹے سرفرار کو ٹکٹ دلوایا جو بڑی محنت کے بعد سابق وزیر کو ہرانے میں کامیاب رہے۔2013ء کے عام انتخابات میں چوہدری نثار نے خود اس حلقے سے بطور آزاد اُمیدوار الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا۔ ان کے مقابلے میں نون لیگ نے اپنا ٹکٹ کسی کو نہ دیا تاہم پی ٹی آئی نے واثق قیوم عباسی کو میدان میں اُتارا جنہیں سخت مقابلے کے بعد شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔اس حلقے کے نتائج کا اعلان الیکشن کے ایک ہفتے بعد کیا گیا تاہم مخالفین نے نتائج کو مسترد کر دیا۔اطلاعات کے مطابق ان انتخابات میں بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض نے چوہدری نثار کو ہرانے کے لیے پی ٹی آئی کے امیدوار کی بھر پور حمایت کی تھی اور خفیہ طور پر یہاں کے پراپرٹی ڈیلرز سے مل کر انہیں ووٹ ڈلوائے تھے جس کی وجہ سے میاں واثق لگ بھگ 50 ہزار ووٹ لینے میں کامیاب رہے تھے۔بعدازاں چودھری نثار نے یہ نشست خالی چھوڑ دی جس پر ضمنی انتخاب کے دوران میاں واثق کو شکست دیتے ہوئے سرفراز افضل نے کامیابی اپنے نام کی۔

2018 کے انتخاب کے لئے چوہدری نثار نے اس حلقے سے ایک بار پھر الیکشن لڑنے کا اعلان کیا ہے لہذا چوہدری سرفرار ان کا ساتھ دے رہے ہیں کیونکہ چوہدری نثار جیتنے کی صورت میں جب یہ نشست چھوڑیں گے تو اپنی جگہ سرفراز کو ہی الیکشن لڑوائیں گے۔دوسری جانب بحریہ ٹاون کے مالک ملک ریاض کے بزنس پارٹنر حاجی امجد حسین بھی اسی حلقے میں اپنی الیکشن مہم جاری رکھے ہوئے ہیں۔اطلاعات کے مطابق ملک ریاض اس بار میاں واثق کی بجائے حاجی امجد کی حمایت کرتے ہوئے انہیں جتوانے کی بھرپور کوشش کریں گے۔حاجی امجد اور میاں واثق دونوں ہی پی ٹی آئی کے ٹکٹ کے اُمیدوار ہیں تاہم پارٹی قیادت کی جانب سے تاحال اپنے حتمی اُمیدوار کا فیصلہ نہیں کیا گیا۔سیاسی حلقوں کا ماننا ہے کہ وہ پی ٹی آئی کا ٹکٹ نہ ملنے کے باوجود بھی ایک مضبوط امیدوار ہوں گے اور چودھری نثار کے لیے انہیں ہرانا آسان نہیں ہوگا۔سابق صوبائی وزیر راجہ بشارت حیرت انگیز طور پر تاحال خاموش ہیں لیکن اگر قاف لیگ اور پی ٹی آئی کے درمیان سیاسی اتحاد ہو جاتا ہے تو وہ میدان میں اُتر سکتے ہیں۔اس حلقے سے متحدہ مجلس عمل نے بھی اپنے امیدوار مولانا بابر کو میدان میں اتارنے کا فیصلہ کیا ہے۔ سابق صوبائی وزیر راجہ بشارت حیرت انگیز طور پر تاحال خاموش ہیں لیکن اگر قاف لیگ اور پی ٹی آئی کے درمیان سیاسی اتحاد ہو جاتا ہے تو وہ میدان میں اُتر سکتے ہیں۔اس حلقے سے متحدہ مجلس عمل نے بھی اپنے امیدوار مولانا بابر کو میدان میں اتارنے کا فیصلہ کیا ہے۔