counter easy hit

تیل کے ذخائر پر بڑا حملہ

اہور: دوسری عالمی جنگ کے دوران اتحادیوں کا ایک ہوائی بیڑا بن غازی (لیبیا) میں مقیم تھا۔ ایک دن اسے حکم ملا کہ پلوستی پر حملہ کیا جائے جہاں جرمنی کا تیل صاف کرنے کا زبردست کارخانہ تھا اور دور دور تک تیل کے گہرے کنویں موجود تھے جن کی حفاظت کا انتظام جرمنی نے بڑے مستحکم انداز میں کیا تھا۔

Big assault on oil reserves یہاں گنوں کے اعلیٰ نظام کے علاوہ جرمنی کا ہوائی بیڑا بھی تھا۔ پلوستی کے کارخانے رومانیہ کے دارالسلطنت بخارست کے شمال میں واقع تھے۔ چونکہ رومانیہ پر جرمنی کا قبضہ ہو چکا تھا اس لیے تیل کے ذخائر کی حفاظت کی ذمہ داری بھی جرمنی نے لے لی تھی۔ بہرحال اتحادیوں کے 24 بی کے180 کے قریب ہوائی جہاز پلوستی پر حملے کے لیے روانہ ہوئے جن میں لب ماڈل 117 ہوائی جہاز بھی شامل ہو گئے لیکن ان میں سے دو اڑان لیتے وقت ہی تباہ ہو گئے۔ یہ ہوائی بیڑا بخارست سے گزرتا ہوا آگے نکل گیا۔ جب پلوستی پر پہنچا تو زمین سے ہونے والی فائرنگ سے اس کے تین چار ہوائی جہازوں کے ٹکڑے ہو گئے اور ان کے ہواباز بھی مارے گئے۔

یہ گویا اس حملہ کی ابتدا تھی جس میں جرمنی کا دفاعی نظام کامیاب رہا اور حملہ آوروں کو نقصان اٹھانا پڑا۔ لیکن اس معمولی نقصان سے اتحادیوں کا ہوائی بیڑا بد دل نہیں ہوا۔ اس نے بم برسانے شروع کیے۔ موسم خراب تھا جس کی وجہ سے بم نشانے پر نہیں گرے۔ زمین پر بے شک دھوئیں کے بادل اٹھتے دیکھے گئے۔ شاید یہ دھواں ریلوے لائن اور اس سے متعلقہ علاقوں میں آگ لگ جانے سے اٹھ رہا تھا کیونکہ زمین پر اونچے اونچے آگ کے شعلے بلند ہو رہے تھے۔ چونکہ نیچے سے برابر فائرنگ جاری تھی اس لیے ہوائی جہازوں کی فارمیشن بار بار ٹوٹ جاتی تھی۔

آخر زمین کی فائرنگ کانشانہ کپتان ہوائی جہاز پر آکر لگا جس سے جہاز کے بازو میں ایک بڑاسا سوراخ ہو گیا۔ پھر بھی جہاز تباہ ہونے سے بچ گیا۔ چند ہی منٹ بعد حملہ آور ہوائی جہازوں پر کئی گولے اور بھی آ کر لگے جن میں سے چند کے تو ٹکڑے اڑ گئے، بعض میں سوراخ ہو گئے۔ آخر حملہ آور اپنے بیڑے کو پلاستی پر سے گزارتے ہوئے آگے نکال لے گئے اور واپس بن غازی لوٹ آئے کیونکہ ان کے کئی ہوا باز زمین کی فائرنگ سے زخمی ہو گئے تھے اور کئی ہوائی جہازوں کو سخت نقصان پہنچا تھا لیکن وہ جلد ہی پھر پلاستی جا پہنچے اور بمباری شروع کردی۔

اتحادیوں کا یہ حملہ بھی ناکام رہا اور وہ پھر ہار کر واپس آگئے۔ تیل صاف کرنے کے کارخانوں کو معمولی سا نقصان پہنچا جن کی مرمت جرمن انجینئروں نے فوراً کرلی۔ 1944ء میں اتحادیوں نے پھر پلاستی کے تیل کے چشموں پر ہوائی حملہ کیا۔ اب ان کے پاس لمبی پرواز والے ہوائی جہاز تھے۔ یہ حملہ اٹلی کے ٹھکانوں پر سے کیا گیا تھا۔ اس میں بڑی خونریز جھڑپیں ہوئیں۔ جرمن ہوائی جہازوں نے بھی سخت مقابلہ کیا۔ ان کے لڑاکا طیارے اتحادیوں کے بمباروں کی صفوں میں گھس آتے اور تباہ ہو کر یا تباہ کر کے چلے جاتے۔

دوسری طرف زمین کی توپوں نے ناک میں دم کر دیا تھا۔ مگر اتحادیوں کے ہوا باز پلاستی کے تیل کے چشموں کی قسمت کا فیصلہ کرنے پر تلے ہوئے تھے۔ یہ چشمے جرمنی کے لیے نہایت اہم تھے۔ جرمنی نے اپنے مفتوحہ علاقوں میں جہاں کہیں تیل کے ذخائر پائے پہلے ان پر قبضہ کر لیا تھا۔ غرض کافی عرصہ تک ہوائی جنگ جاری رہی جس میں اتحادیوں کے 600 کے قریب ہوا باز افسر کام آئے مگر وہ پلاستی کی ریفائنری اور تیل کے چشموں کو بالکل تباہ کر کے رہے