counter easy hit

فوجی عدالتوں پر سیاست ختم کی جائے

ایک ہی دن کی دو الگ الگ بڑی خبریں ہیں۔ سیاسی جماعتیں ابھی تک فوجی عدالتیں دوبارہ قائم کرنے پر متفق نہیں ہو سکی ہیں۔ اس ضمن میں پارلیمانی رہنماؤں کا تیسرا اجلاس ناکام ہو گیا ہے مگر یہ طے ہوا ہے کہ اجلاس جاری رہیں گے۔ دوسری طرف ڈی جی آئی ایس پی آر نے ایسی قوتوں کے حوالہ سے خبردار بھی کیا ہے جو حساس معاملات پر غلط فہمیاں پھیلا رہی ہیں۔مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ ہماری سیاسی جماعتیں فوجی عدالتوں کا راستہ روک کر ملک کی عدلیہ کا مقدمہ کیوں لڑ رہی ہیں۔ کیا فوجی عدالتیں ملک کی عدلیہ کے لیے ایک سوالیہ نشان ہیں اور عدلیہ اس کو اپنے لیے سوالیہ نشان سمجھتی ہے۔ سمجھ نہیں آرہی  ہم کیوں عدلیہ کا مقدمہ لڑیں۔ وہ خود اپنا مقدمہ لڑے۔

یہاں تو عام آدمی کو انصاف نہیںملتا ہے۔ اور ایسے میں یہ کیسے توقع کی جا سکتی ہے کہ دہشت گردوں کو بھی انصاف ملے گا۔ جہاں ایک معصوم بچی  طیبہ کا مقدمہ چیف جسٹس پاکستان کو خود سننا پڑے ۔ میں پانامہ پر اس لیے بات نہیں کرنا چاہتا۔ کیونکہ اس ضمن میں آپ جو بھی بات کریں وہ متنازعہ ہو جاتی ہے۔ ویسے بھی پانامہ کی سماعت کرنے والا بنچ اس بات کو پسند نہیں کر رہا کہ عدالتی کاروائی پر تبصرہ کیا جائے۔ اس کیس کے لوگوں کو ججوں کے ریمارکس ایسے یاد ہو رہے ہیں جیسے دو کا پہاڑہ یاد ہے۔

مزہ کی بات تو یہ بھی ہے کہ حافظ سعید کو بھی یہی امید ہے کہ انھیں بھی اس نظام سے ہی انصاف مل جائے گا۔ گرفتاری سے چند گھنٹے قبل جب میری ان سے ملاقات ہوئی تو وہ بھی انصاف حاصل کرنے کی بات کر رہے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ انھوں نے پاکستان کے قانون اور آئین کی آج تک کوئی خلاف ورزی نہیں کی۔ پورے ملک میں ان کے خلاف ایک بھی ایف آئی آر درج نہیں ۔ وہ ایک امن پسند محب وطن شہری ہیں۔ اس لیے اس ملک کی عدالتیں انھیں انصاف دیں گی۔حا فظ سعید کو نظام عدل پر بھر پور اعتماد تھا۔

یہ سوال ضرور اہم ہے کہ ہمیں فوجی عدالتوں کی کیوں ضرورت ہے۔ اس کا سادہ جواب تو یہ ہے کہ ہمارا عدالتی نظام دہشت گردوں کے مقدمات سننے کے قابل نہیں ہے۔اگر دہشت گردوں کے مقدمات  بھیجے جاتے ہیں تو سب بری ہو جاتے ہیں۔ جب دہشت گرد قانون کی خامیوں کیوجہ سے بری ہو جاتے ہیں تو اس سے دہشت گردی کے خلاف جنگ کو نقصان پہنچتا ہے۔ اس لیے جب تک ضرب عضب جاری ہے فوجی عدالتیں ناگزیر ہیں ۔ اگر ایسا ہے تو سیاسی جماعتیں کیوں نہیں مان رہیں۔ شاید سیاسی جماعتوں کو یہ بات سمجھ نہیں آرہی۔ابھی تک فوجی عدالتوں کے قیام کا معاملہ لٹکا ہوا ہے۔ کیا ایک سال کے لیے یہ دوبارہ قائم ہو سکتی ہیں کہ نہیں۔ اس سوال کے جواب میں بہت سے سوالوں کے جواب موجود ہیں۔ اس لیے اس سوال کو سادہ سوال نہ سمجھا جائے۔

کیا فوجی عدالتوں کے دوبارہ قیام کا معاملہ پانامہ کی وجہ سے التوا کا شکار ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ اسکرپٹ رائٹرز کا یہ خیال ہے کہ اگر پانامہ کا فیصلہ حکمرانوں کے خلاف آگیا تو فوجی عدالتوں کا مسئلہ کوئی اور حل کرے گا۔ اور اگر اس کا فیصلہ حکمرانوں کے حق میں آگیا تب بھی فوجی عدالتوں کا سین مختلف ہو سکتا ہے۔ اس لیے اسکرپٹ رائٹرزابھی فوجی عدالتوں کا معاملہ فوری حل نہیں کرنا چاہتے۔ سب ہی پانامہ کے فیصلہ کا انتظار کر رہے ہیں۔ آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ بظاہر پانامہ اور فوجی عدالتوں کا آپس میں کوئی تعلق نہیں لیکن اس وقت یہ تعلق گہرا ہے کیونکہ پانامہ نے سب کو روک دیا ہے۔

پانامہ کی فلم اس قدر دلچسپ ہو گئی ہے کہ فریقین اسکرپٹ رائٹرز شائقین سب اس وقت اس کے علاوہ کسی اور چیز پر بات کرنے کے لیے تیار نہیں۔ حافظ سعید بھی ایسے موقع پر گرفتار ہوئے ہیں جب قوم پانامہ میں پھنسی ہوئی ہے اس لیے ان پر فوکس کرنے کے لیے کسی کے پاس ٹائم ہی نہیں ہے۔

تاہم ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ موجودہ صورتحال میں فوجی عدالتیں پاکستان کے امن کے لیے ناگزیر ہیں۔ ہمیں جس قسم کی دہشت گردی کا سامنا ہے۔ اس سے نبٹنے کے لیے فوجی عدالتیں وقت کی اہم ضرورت ہیں۔ا س کے بغیر دہشت گردوں کو ان کے انجام تک نہیں پہنچایا جا سکتا۔ بلکہ یہ کہنا بھی غلط نہ ہو گا کہ فوجی عدالتوں کے بغیر یہ جنگ نہیں جیتی جا سکتی۔ جو لوگ یہ دلیل دے رہے ہیں کہ ایک جمہوری نظام میں فوجی عدالتوں کا وجود جائز قرار نہیںدیا جا سکتا، وہ یہ کیوں نہیں سمجھ رہے کہ کیا ایسے نظام کی کسی جمہوری معاشرہ میں کوئی گنجائش ہے جہاں عام معمولی نوعیت کے مقدمات بھی کئی کئی سال سے زیر التوا ہیں، جہاں سنگین نوعیت کے مقدمات میں بھی قانونی پیچیدگیوں کی وجہ سے ملزمان ضمانت حاصل کر لیتے ہیں۔ جہاں گواہ محفوظ نہیں بلکہ یہ ایسا نظام ہے جہاں جج بھی محفوظ نہیں ہیں۔ یہ نظام ملک کے دہشت گردوں کو ان کے انجام تک کیسے پہنچا سکتا ہے۔

جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ فوجی عدالتوں میں انصاف کے تقاضے نہیں پورے کیے جاتے۔ وہ یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ انصاف کے تقاضے تو عام عدالتوں میں بھی پورے نہیں کیے جا رہے۔ جو یہ کہہ رہے ہیں کہ فوجی عدالتوں میں ملزمان کو دفاع کا موقع نہیں ملتا۔ وہ یہ کیوں بھول رہے ہیں کہ عام عدالتوں میں کوئی ان ملزمان کے خلاف گواہی ہی نہیں دے سکتا۔ جو یہ کہہ رہے ہیں کہ انصاف دہشت گردوں کا حق ہے وہ یہ کیوں بھول رہے ہیں کہ انصاف عام آدمی کا بھی حق ہے۔ دہشت گردی کا شکار لوگ بھی انصاف کے طلبگار ہیں۔جہاں ایان علی کے ای سی ایل کا معاملہ طے ہونے میں آٹھ آٹھ ماہ لگ جائیں وہاں عام آدمی کا کیس کون سنے گا۔ جہاں نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد پر ابہام ہی ابہام ہو وہاں دہشت گردی کی لڑائی پر سوالیہ نشان کیوں نہیں اٹھیں گے۔

ہمارا نظام اس فلسفہ کے تحت کام کر رہا ہے کہ بے شک سو گناہ گار بچ جائیں لیکن ایک بے گناہ کو سزا نہیں ہونی چاہیے۔ لیکن دہشت گردی کی اس جنگ میں ایک بھی گناہ گار کا بچ جانا ملک و قوم کے لیے خطرناک ہے۔ ہم ایک بھی دہشت گرد کے بچ جانے کا رسک لینے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ اس لیے فوجی عدالتوں پر سیاست اور جمہوریت سے بالاتر ہو کر فیصلہ کرنا چاہیے۔ دہشت گردوں سے نبٹنا فوج کا کام ہے یہ کام ان کو ہی کرنے دینا چاہیے۔

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website