counter easy hit

سانحہ اے پی ایس: بہادر طالب علم احمد نواز کا انٹرویو

احمد نواز ان بچوں میں شامل ہیں جو سانحہ اے پی ایس میں بچ گئے تھے۔ جب انہیں اسپتال لایا گیا تو یہ شدید زخمی تھے، انہیں بہتر علاج کے لیے برطانیہ بھیجا گیا جہاں یہ اب تک مقیم ہیں۔ ان سے تفصیلی بات چیت کرنے کا موقع ملا جسے ایک انٹرویو کی صورت میں آپ سب کے سامنے پیش کر رہا ہوں۔

سوال: سانحہ آرمی پبلک اسکول سے متعلق بتائیے کہ اس دن یہ اندوہناک واقعہ کیسے پیش آیا اور آپ نے اپنی جان کیسے بچائی؟

احمد نواز: جب ہم اسکول پہنچے تو ہمیں بتایا گیا کہ آج تمہیں فرسٹ ایڈ ٹریننگ دی جائے گی جس کے لیےسارے بچے ہال میں جمع ہورہے تھے۔ سو ہم بھی ہال کی طرف چلے گئے لیکن کچھ دیر بعد دیکھا کہ کچھ لوگ اسلحہ سے لیس ہماری طرف آرہے تھے۔ ہم نے سوچا چونکہ “فرسٹ ایڈ ٹریننگ” کا کہا گیا ہے اس لیے یہ سب اسی کے لیے ہوگا مگر وہ مسلحہ افراد ہال میں داخل ہوئے انہوں نے دروازوں کی طرف فائر کھول دیے جسکے نتیجے میں بہت سارے بچے وہیں ڈھیر ہوگئے۔

ہم کرسیوں کے نیچے چھپ گئے لیکن انہوں نے باری باری چھپے ہوئے بچوں کو بھی سر پر گولیاں مارنا شروع کردیں۔ جب میرے قریبی بچے کو گولی ماری گئی تو سارا گن پاؤڈر میرے منہ پر گرگیا، جوں ہی مجھ پر فائر کیا گیا تو میں نے اپنا سر کرسی کے اندر دھکیل دیا اور یوں گولیاں میرے سر کے بجائے بائیں ہاتھ پر جا لگیں کچھ دیر بعد میرا فون بجنا شروع ہوا غالباً ابو کی کال تھی، میں نے اپنا فون قریب جلتی ہوئی آگ میں پھینک دیا اور دوبارہ نعشوں میں چھپ گیا۔

دوبارہ وہ دہشگرد واپس آئے اور جو بچے زخمی حالت میں چیخ رہے تھے ان پر دوبارہ فائر کھولے مگر میں نے خود کو مردہ سمجھا اور شدید درد کے باوجود بھی خاموش رہا، بالآخر جب یہ سب ختم ہوگیا تو ہمیں باہر سے آوازیں آئیں ہم سے دیکھا کچھ لوگ ہماری طرف دوڑ رہے تھے۔ مجھے بھی ایمبولینس میں ڈال دیا گیا۔ اس میں سب مردہ بچے تھے، میں نے آواز لگائی کہ میں زندہ ہوں۔ اس کے بعد مجھے اسپتال لے جایا گیا۔

سوال: اپنے شہید بھائی حارث نواز کے بارے میں کچھ  بتائیں۔

احمد نواز: اے پی ایس سانحے سے ایک دن قبل جب ہم اسکول سے اپنے گھر واپس آئے تو پتا چلا کہ ہمارے گاٶں میں ہمارے کوئی رشتہ دار فوت ہو گئے ہیں۔ لہٰذا امی، ابو اور ہمارا چھوٹا بھائی “عمرنواز” وہاں چلے گئے۔ ابو رات کو تقریبا ایک بجے واپس آگئے تو دیکھا حارث ابھی تک جاگ رہا تھا۔ انہوں نے جاگنے کی وجہ پوچھی تو اس نے کہا کہ چونکہ امی گھر نہیں ہیں تو وہ اگلے روز سکول جانے کا ارادہ نہیں رکھتا۔ ابو غصہ ہو گئے اور اسے فوری طور پر سونے کا کہا تاکہ اگلی روز جلد اٹھ کر سکول جا سکے۔ اگلے روز جب ہم سکول جا رہے تھے تو وہ مجھ سے بہت لڑ رہا تھا۔ کاش ہمیں پتا ہوتا کہ آج کے بعد وہ کبھی واپس نہ آئے گا تو ہم اسے کبھی زبردستی سکول نہ بھیجتے۔

سوال: آپ کو علاج کیلئے لندن کے کوئین الزبتھ اسپتال کیوں اور کیسے لےجایا گیا تھا؟

احمد نواز: پاکستان میں جب میں اسپتال میں زندگی اور موت سے لڑ رہا تھا تو میرے والد سے اسپتال کے ایک ڈاکٹر نےکہا کہ آپکا ایک بیٹا حارث نواز شہید ہو چکا ہے اور دوسرا بیٹا شدید زخمی ہے۔ آپ اسے جلد ازجلد بیرون ملک علاج کیلئے لے جائیں۔ میرے والد کے پاس اتنے وسائل نہیں تھے۔ انہوں نے ہر کسی سے میرے علاج کیلئے منت سماجت کی مگر انہیں صرف نا امیدی ہی ملی۔ آخرکار ابو نے مایوس ہو کر کہا کہ اگر احمد نواز کو علاج کیلئے نہ بھیجا گیا تو میں احمد کو ایمبولینس میں ڈال کر وزیراعظم ہاٶس کے سامنے لے جا کر احتجاج کرونگا۔ اس بیان پر پوری پاکستانی قوم یہاں تک کہ مختلف ممالک سےکالیں آئیں۔ پھر اس وقت وفاقی حکومت حرکت میں آئی، ہمارے ویزے جاری کیے گئے اور سابق وزیرِاعظم میاں محمد نواز شریف نے میرے علاج کیلئے دو لاکھ پاٶنڈ یہاں اسپتال میں جمع کروائے اور مجھے یہاں علاج کے لیے بھجوایا گیا۔

سوال: برمنگھم میں آپ کے تعلیمی و معاشی اخراجات حکومت پاکستان ادا کر رہی ہے؟

احمد نواز: نہیں، ہمارے پاس حکومتی کوئی امداد نہیں ہے، آپ وفاقی و صوبائی حکومتوں سے پوچھ سکتے ہیں۔ ہمیں صوبائی حکومت کی طرف سے صرف 6 ماہ کا خرچہ دیا گیا تھا، اس کے بعد ہمیں پھوٹی کوڑی تک نہیں دی گئی۔ یہاں کے کچھ مقامی افراد اور کاروباری افراد ہماری مدد کر رہے ہیں۔

سوال: آپ جہاں بھی جاتے ہیں پاکستان کا جھنڈا آپکے سینے پر لگا ہوتا ہے اور آپ پاکستان اور اسلام کی بات کرتے ہیں۔ اس بارے میں کچھ بتائیں۔

احمد نواز: آپ کو بہتر پتاہے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کو کمزور سمجھا جاتا ہے، اس لئے میں جہاں بھی جاتا ہوں وہاں اسلام اور پاکستان کا مثبت چہرہ لوگوں کو بتاتا ہوں۔ میں چلتا پھرتا پاکستان ہوں اور میرا اصل مقصد پوری دنیا کے سامنے پاکستان اور اسلام کا مثبت چہرہ اجاگر کرنا ہے۔ میں پاکستان کا بغیر تنخواہ کے سفیر ہوں۔

سوال: برطانیہ کی وزیراعظم تھریسے مے نے بھی آپ سے ملاقات کی تھی۔ انہوں نے اس ملاقات کے دوران آپ سے کیا کہا تھا؟

احمد نواز: میں نے ایک جگہ نیوز دیکھی کہ یہاں کے بچے اسکولوں سے بھاگ کر داعش میں شامل ہورہے ہیں تو میں نے سوچا کہ مجھے یہاں اسکولوں میں جا کر اپنی کہانی سنانی چاہئے تاکہ ان بچوں کو غلط طرف جانے سے روکا جائے۔ میں نے ایجوکیشن اینڈ پیس کے نام سے ایک کمپین شروع کی اور اسکے ذریعے برطانیہ کے اسکولوں میں جا کر اپنی کہانی سنائی تو جب یہاں کے میڈیا کو اس بارے علم ہوا تو انہوں نے اس کو بڑی کوریج دی اور یوں وزیراعظم تھریسہ مے نے مجھے ملاقات کے لیے بلایا۔ انہوں نے کہا کہ ہم جو کام بلین پائونڈز لگا کر نہ کرسکے، وہ آپ نے بنا پیسے کے کردکھایا۔ یہاں کے نوجوان آپ سے بہت متاثر ہیں، آپ اپنا یہ کام جاری رکھیں۔

سوال: آپ خود چونکہ برمنگھم میں مقیم ایک اقلیت ہیں لہذا پاکستانی اقلیت کے بارے مسلمانوں کی اکثریت کو کیا پیغام دینگے؟

احمد نواز: یہ بہت ہی اہم سوال ہے۔ ہم یہاں اقلیت میں شامل ہیں لیکن ہماری عزت کی جاتی ہے۔ جبکہ پاکستان میں ایسا نہیں ہوتا۔ دراصل یہ تمام چیزیں تعلیم کے اردگرد گھوم رہی ہیں، جب تک ذہن تعلیم یافتہ نہیں ہوگا، لوگوں میں اسلامی تعلیمات کی صحیح  سمجھ بوجھ نہیں آئی گی، تب تک یہ مسائل رہیں گے۔ اقلیتوں کو میرے خیال میں سینے سے لگانا چاہئے۔ یہ ہم سے زیادہ ہمارے ملک کے ساتھ وفادار ہیں۔ ان کے  تحفظ کے لیئے سخت قوانین بنانے چاہئے تاکہ کسی میں اقلیت کےخلاف کچھ کرنے کی جرات نہ ہو۔

سوال: پاکستان میں ان بچوں کو اسکول کیسے بھیجا جائے جو اسکول سے باہر ہیں؟ اور اسکے لئے حکومت وقت کو کیا کرنا چاہئے؟

احمد نواز: یقیناً پاکستان میں بہت سارے بچے اسکول نہیں جا رہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کوئی ورکشاپ پہ کام کررہا ہے تو کوئی اینٹوں والے بھٹے پہ مثلا مختلف چیزوں میں ان کو لگایا ہوا ہے۔ پاکستان میں اس حوالے سے قانون سازی کی ضرورت ہے  جیسے کہ اب یہاں کے ملکوں میں ہے، اگر یہاں پر کوئی بھی بچہ اسکول ٹائم کے دوران باہر نظر آجائے تو فوراً اس کے والدین سے رابطہ کیا جاتا کہ یہ اسکول کیوں نہیں گیا اور بلاوجہ جان بوجھ کر والدین نے اسے اسکول نہیں بھیجا تو انہیں باقاعدہ جرمانہ کیا جاتا ہے۔ ہمیں لوگوں کو تعلیم کے حوالے سے آگاہی دینے کیساتھ ساتھ اپنے اسکولوں میں معیاری تعلیم دینا بھی لازم ہے۔

سوال: پاکستان کے تعلیمی اداروں میں طلباء کی سیاسی تنظیمیں بنادی جاتی ہیں کیا اس سے تعلیم پر فرق نہیں پڑتا اور آپ اس بارے کیا کہیں  گے؟

احمد نواز: بہت ہی افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے، ایک تو میں اس چیز کا بالکل حامی نہیں ہوں کہ اسکولوں، کالجوں، اور یونیورسٹیوں میں طلباء تنظیمیں بنائی جائیں کیونکہ درس گاہ کا مطلب نوجوانوں کو تعلیم دینا ہے نا کہ یہ کوئی سیاسی اکھاڑہ ہے۔ پاکستان میں اس حوالے سے کوئی خاص شعور نہیں ہے، اس لیے سب سے پہلے تو اس چیز پر پابندی عائد کرنی ہوگی کیونکہ اس سے نقصانات جنم لیتے ہیں۔

سوال: کیا آپ کا پاکستان واپسی کا ارادہ ہے؟

احمد نواز: اپنے ملک واپسی کا میرا بہت دل چاہتا ہےلیکن یہاں میرا علاج چل رہا ہے اور میں تعلیم بھی حاصل کر رہا ہوں۔ اب تو مجھے اے لیول کے لیے وظیفہ بھی مل گیا ہے۔

مجھے اگر اپنے ملک و قوم  کیلئے کچھ کرنا ہے تو وہ اعلی تعلیم کے بغیر ممکن نہیں لہذا میں اپنی تعلیم مکمل کرکے ضرور پاکستان واپس آئونگا۔