counter easy hit

اللہ کے شکر گزار بنئے

Allah

Allah

تحریر: عاصمہ عزیز، راولپنڈی
شکر ادا نہ کرنا بھی ایک بیماری ہوتی ہے۔اللہ تعالیٰ کی تمام مخلوقات میں سے یہ بیماری سب سے زیادہ انسان میں پائی جاتی ہے۔ قرآن کریم میں سورة العدیت میں ہانپتے ہوئے گھوڑوں کی قسم کھا کر فرمایا گیا ہے کہ انسان اپنے رب کا بڑا ناشکرا ہے۔لفظ شکر عربی زبان کے لفظ د ابة شکور سے نکلا ہے۔ دابة شکور اس جانور کر کہتے ہیں جو اپنے صحت مند ہونے کی و جہ سے اپنے مالک کا شکر گزار ہوتا ہے۔

قدیم زمانے میں گھوڑوں کو جنگ کے لئے استعما ل کیا جاتا تھا۔گھوڑا اگرچہ بہت طاقت ور جانور ہے لیکن پھر بھی یہ اﷲ کے حکم سے انسان کے تابع اور اسکا فرما نبردار ہے۔ انسان اس کی صرف دیکھ بھال کرتا ہے اور وہ انسان کے اس احسان کا بدلہ چکا تے ہوئے اپنی جا ن خطرے میں ڈال کر جنگ میں اپنے مالک کی حفاظت کرتا ہے ۔جبکہ انسا ن کا یہ حال ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے اس کے لئے نعمتوں کا ایک جہاں آباد کررکھا ہے پھر بھی وہ اپنے رویے سے اللہ کی نعمتوں کا اعتراف کرنے کی بجائے اس کا گلہ شکوہ کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔شکوہ شکر کی ضد ہے اور گلہ شکو ہ چاہے خالق کا کیا جائے یا اس کی مخلوق کا دونوں صورتوں میں نا پسندیدہ قرار دیا گیا ہے۔

اﷲ تعا لیٰ کا انسا ن پر سب سے بڑا احسان اور اسکی نعمتوں میں سب سے بڑی نعمت یہ ہے کہ اس نے انسان کی ہدایت کے لئے انبیاء اور پیغمبر بھیج کر نہ صرف انسان کی رہنمائی کے لئے عملی نمونہ پیش کیا بلکہ آسمانی کتب کے ذریعے ہدایت کی اس روشنی کو کئی امتوں اور نسلوں کے لئے محفوظ بھی کر دیا۔لیکن انسانوں میں سے بعض نے اﷲ کے پیغمبر وں اور کتب کو جھٹلا کر اﷲ کی اس نعمت پر ناشکری کا ارتکاب کیا ۔بنی اسرائیل کی قوم جسے اﷲ تعالیٰ نے تما م قوموں پر فضیلت عطا فرمائی اور دنیاوی اور دینی ترقی سے نوازا گیا لیکن پھر بھی وہ اﷲ کی نعمتوں سے انکا ر کر کے ناشکری کرتے ہوئے بداخلاقی اور نا سمجھی کا ثبوت دیتے رہے اور ان کے اسی رویے کی وجہ سے ان پر مختلف آزمائشیں آئیں اور وہ زوال کا شکار ہوئے۔

آج اگر ہم مسلمانوں پر نظر ڈالی جا ئے تو ہمارا رویہ بھی بنی اسرائیل سے کچھ مختلف نہیں ہے ۔اﷲ تعالیٰ نے ہمیں تمام نبیوں کے سردار حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا امتی بنا کر بھیجا اور ہماری رہنمائی کے لئے ایک محفوظ اور مکمل کتاب بھیجی ۔اﷲکی اس نعمت پر ہم زبان سے تو شکر ادا کرتے ہیں لیکن ہمارے رویے اس کے برعکس دکھائی دیتے ہیں ۔اﷲکی اس نعمت کی نا شکری ہم نے یوں کی کہ ہم اس کا حق ادا نہیں کر سکے ۔ہم نے اﷲکی کتاب کو سمجھنے اور اس سے ہدایت حاصل کرنے کی بجائے اسے محض خاص مواقع میں کھولنے والی کتاب سمجھ لیا ہے۔ہم قرآن کی عزت و تکریم کرتے ہوئے اسے اپنے گھروں میں سب سے اونچی جگہ پر رکھتے تو ہیں لیکن اسکو سمجھتے اور اسکی تعلیمات پر عمل نہیں کر پاتے ۔دنیا کی تعلیم کو ہم تر جیحی جبکہ قرآن کی تعلیم کو ثانوی حیثیت دیتے ہیں جو کہ اس نعمت سے نا شکری کا ثبوت ہے۔

ناشکری کی ایک قسم یہ بھی ہے کہ جس رب نے ہمیں دنیا کی نعمتوں سے نوازا ہے انسان اس سے غافل رہے۔اﷲ کی عطا کردہ ان گنت نعمتوں کو ہم میں سے کوئی بھی شمار نہیں کر سکتا لیکن پھر بھی ہمیں اس کے سامنے سجدہِ شکر کرنے کا وقت نہیں ملتا ۔ہم لوگوں کے احسانوں اور مہر بانیوں کو تو کس حد تک یاد رکھتے ہیں لیکن اپنے رب کی مہربانیوں کو بھلا کر اس کی طرف سے ملنے والی آزمائشوں پر گلہ شکوہ کرتے ہوئے دکھا ئی دیتے ہیں۔نعمت شکر کا امتحان ہوتی ہے۔

ہر نعمت اپنے ساتھ آزمائش کا پہلو ضرور رکھتی ہے ۔جب ہم اﷲ کی عطا کردہ نعمتوں پر شکر ادا نہیں کر پاتے تو بعض دفعہ نعمت پیچھے چلی جاتی ہے اور آزمائش سامنے آ جا تی ہے ۔اور ایسے موقع پر ہمیں مایوسی اور اﷲسے گلہ شکوہ کرنے کی بجائے توبہ اور استغفار کرنا چاہیے۔ایک مومن کا رویہ یہی ہوتا ہے کہ وہ نعمت پر شکر ادا کر تا ہے اور نہ ملے تو صبر کر کے جتنا اﷲنے دیا ہے اس پر قنا عت کرتا ہے۔جبکہ ہم شکر ادا اس لئے نہیں کر پاتے کہ ہمارا ظرف چھوٹا ہے۔

 Pray

Pray

ظرف برتن کو کہتے ہیں ۔جس طرح ایک چھوٹے برتن میں کم چیزیں سما سکتی ہیں اسی طرح چھوٹے ظرف والے انسان میں مشکلات کو برداشت کرنے کی صلاحیت کم ہوتی ہے۔اس لئے وہ اﷲ کی تما م نعمتوں کو بھلا کر مشکل میں گلہ شکوہ کرتا ہے۔اﷲ تعالیٰ کا شکر گزار بننے کے لئے ہمیں اپنے ظرف کو بڑا کرنا ہوگا۔اگر ہم مشکلات کے وقت اپنے اردگرد خود سے زیادہ مصیبت زدہ لوگوں پر نظر رکھیں تو یقینا ہم اﷲ کی عطا کردہ نعمتوں پر اسکا شکر ادا کر سکیں گے۔

تحریر: عاصمہ عزیز، راولپنڈی