counter easy hit

زندہ دلانِ شہر لاہور

Minar e Pakistan

Minar e Pakistan

تحریر : ساجد حسین شاہ
ہمارے معاشرے میں کئی چھوٹی چھوٹی برائیاں ہیں جنہیں ہم برائی تسلیم کر نے کو تیار نہیں یہی حقیر سی برائی ایک بڑے مسئلے کا پیش خیمہ ثا بت ہو تی ہے او ر اس مسئلے کا سدباب کرنے کو ایک طویل عر صہ درکار ہو تا ہے زندگی کی حقیقت کو دیکھنا ہو تو خود کو دنیا کی اس بھیڑ سے الگ کر کے دیکھیںزندگی آپ کے سامنے اصل حقیقت خود بیان کر دے گیااصل کہانی تو یہ ہے کہ ہر انسان دوسرے انسان کی مخالفت میں کھڑا معلوم ہوتا ہے خواہ وہ کاروبار کا میدان ہو یا سیا ست کا یا پھر دفتری ما حول ہی کیوں نہ ہو کسی بھی معا شرے میں اپنے سے بہتر انسان بننے کی کو شش تر قی کی علا مت ہے لیکن اس کے لیے کیا ضروری ہے کہ اس انسان کو ہدف بھی بنایا جا ئے ؟دوسرے کو گرا کر خو د کو اونچا بنانے کے بجا ئے خو د کو اتنا بلند کرے کہ اس کے برابر جا پہنچے۔ ہما رے معا شرے میں ہو نے وا لی ترقی نما تبدیلیاں کچھ لحا ظ سے خو ش آ ئند ہیں مگر اس کے ساتھ ساتھ کچھ ایسے پہلو بھی ہیں جو ہمیں ہما ری تہذیب سے دور کرتے جا رہے ہیں

میرا شہر لا ہور جسے پا کستان کا دل کہا جا تا ہے اور دل کی مو جو دگی ہی کسی جسم میں زندگی کی علامت ہے لاہور اپنی ثقا فت اور لذیز کھانوں کی وجہ سے دنیا میں اپنا ایک مقام رکھتا ہے لاہور کا شمار دنیا کے گنجان ترین شہروں میں ہو تا ہے لا ہو ر کا پرانا نام لاوا تھا جو ایک ہندو بھگوان راما کے بیٹے کے نام سے منسوب ہے لاہور کی تا ریخ ہزاروں سال پرا نی ہے لا ہور نے کئی حکمرانوں کے نشیب و فراز دیکھے ہیں لاہور کی آ با دی اور رقبے میں بتدریج ا ضا فہ ہو رہا ہے لاہور صوبہ پنجاب کا دارلخلافہ اور پاکستان کا دوسرا بڑا شہر ہے یہ شہر نہ صرف پاکستان بلکہ ایشیا میں تعلیم , اکنامکس ,سیا ست ,کھیلوں کی حب کی حیثیت رکھتا ہے بر صغیر پا ک و ہند کے مختلف علا قو ں سے بہت سے لو گ ہجرت کر کے یہاں آ با د ہو ئے جو اپنے ساتھ مختلف خیا لا ت رہن سہن کے طریقے اور کلچر و تمدن لے کر آ ئے جس نے شہر کے رنگوں میں ا ضا فہ کر دیا اور لا ہور بر صغیر کے لیے جو ہر بن گیا لاہور اپنے لذیز کھا نوں کے بدولت ایک منفر د شہر ہے

یہاں کے مشہور کھا نوں میں نان چنے ،سری پائی ،حلوہ پوری، کڑا ہی گوشت ،لا ہوری برو سٹ قا بل ذکر ہے فوڈ اسٹریٹ جو شا ہی قلعے کے عقب میں وا قعے ہے وہاں دنیا بھر سے لوگ ان لذیز کھا نوں سے لطف اندوز ہو نے آ تے ہیں لا ہور کی تیز رفتا ر تر قی دل کو بھاتی ہے میں جب ہر سال لا ہور جا تا ہوں تو وہا ں بہت کچھ بدل چکا ہو تا ہے مگر اس ترقی یا فتہ لا ہور میں بھی میں لا ہور کا متلا شی رہتا ہوںوہ لا ہور جس میں میں پروا ن چڑھا آج کے لا ہو ر سے بہت مختلف تھااگر ما ضی میں جھانکوں تو شا م ڈھلتے ہی گلی کی نکڑ ہو یا چو را ہے مختلف عمر کے لوگ محفل جما لیتے تھے رات دیر تک یہ محفلیں قہقہوں سے سجی رہتی تھیںمحلے میں پیش آ نے وا لا چھوٹے سے وا قعے پر سا را محلہ شا مل غم ہوتا تھا ہر کوئی ایک دوسرے کے غم و خوشی میں شریک شریک رہتے تھے گلیوں میں کھیلتے ہو ئے بچے ہوں یا گھروں کے آ گے محفل جما ئے عورتوں کی سر گو شیاں ہوں سب ہی دلفریب تھا

محلے کے سب گھر اپنے گھر جیسے لگتے تھے اگر گھر کا سا لن پسند نہ آ ئے توپڑوسن خا لہ سے مانگ آ نا کوئی شر م محسوس نہیں ہو تی تھی دلوں میں حیا تھی پر خلوص تعلقات تھے محلے کے کسی بزرگ کو دیکھتے ہی کسی شرارت میں مشغول لڑکے فورا رفو چکر ہو جا تے تھے یہاں کے لوگوںمیں ایک خا صیت جو سب سے الگ تھی کہ تھوڑی دیر پہلے جو لوگ آ پس میں گتھم گتھا ہو تے تھے مختصر وقت کے بعد ایسے نا رمل تعلقات استوار کر لیتے جیسے کبھی کچھ ہوا ہی نہ ہو مگر اب سب کچھ بدل گیا ہے گنگا ہی الٹے رخ بہنا شروع ہو گئی ہے کچھ دن قبل میں ایک ہو ٹل میں کھانے پر مدعو تھا وہاں یہی مو ضوع زیر بحث تھا ایک ڈاکٹر صا حب جنکا تعلق لا ہو ر سے ہے جب میں نے اان سے اپنی اس خلجان کا ذکر کیا تو وہ بو لے کہ بھیا کس دنیا میں رہتے ہو اب دنیا بدل چکی ہے ہما رے لو گوں نے پنے روز مرہ کے اخراجات کو اپنے اعصابوں پر سوار کر دیا ہے

ہر کو ئی اپنی زندگی دوسرے کی نسبت زیا دہ پر آسائش بنانے کے لیے کو شاں ہے اور مہنگا ئی کے اس دور میں جب ہم اپنی چادر سے پا ئو ں با ہر پھیلانے لگیں گے تو یہی سب ہو گا جب دل میں لا لچ اپنا گھر بنا لے گی تو محبت اور خلوص خود بخود الوداع ہو جائیں گے انسان کی اندرونی محرومیاں اسے اندر سے ریزہ ریزہ کر دیتی ہیں اور بعض اوقات تو یہ محرو میاں انسان کے اندر چھپے حیوان کے اظہار کا سبب بنتی ہیں جو ایک انتہا ئی تشویش ناک حا لت ہو تی ہے جب کوئی دوست کا میابی کا سفر خوش اسلو بی سے طے کر لے تو دوسرے دو ست خو د کو نہیں بلکے نظام کو اس کا ذ مہ دارٹھہراتے ہیں اور معا شرے سے ہمہ تن روٹھ جا تے ہیں اپنی تہذیب سے منہ مو ڑ لیتے ہیں اور اپنی ایک الگ دنیا ہی آ با د کر لیتے ہیں

مگر میں سو چتا ہو ں کہ ہم یہ تر قی کی منزلیں اپنی تہذیب کو زندہ رکھ کر بھی تو طے کر سکتے ہیں اپنی محرو میوں کا غصہ ّ ان عنا صر پر بھی تو نکا ل سکتے ہیں جن کی بدولت یہ محرو میاں ہمارا مقدر بن گئیںپہلے بھی تو سب کچھ ایسا ہی تھا مگر فرق صرف اتنا ہے کہ اس وقت لوگ اپنی چا در کی حیثیت سے بخو بی وا قف تھے اور آ ج کی یہ نسل یہ جا ننے کو تیا ر نہیں لا ہور کی اس جگمگاتی روشنی سے وہ اندھیرے مجھے زیا دہ دل کے قریب لگتے ہیں جس میں ہر آ نکھ دوسرے کی حفا ظت کی ضا من تھی ۔وہ تاریخی شہرجہاں پاکستان کا خواب دیکھنے والا عظیم شا عر و مفکر مدفون ہیں وہ شہر جس میں پاکستان کی بنیاد رکھی گئی اس شہر کی ہر گلی میں زندگی ویسے ہی دوڑے گی جیسے پہلے روں دواں تھی۔لیکن اسکے لیے ہمیںبنیا د پر ستی اور اہل ثروت سے نفرت کو ختم کر کے اپنے دلوں کو ایک با ر پھر سے شاد کر نا ہو گااور یہی شا د دل جن کی بدولت لا ہور کے باسی زندہ دلانے لاہورکے نام سے جانے اور پہچا نے جا تے ہیں۔
یوں تو ہر شہر میرے وطن کا ہے با کمال
پر شہر نہیں کو ئی شہر لاہور جیسا
نہ آ یا سکوں کہیںبھی دیار غیر میں ساجد
کیا کروں دل میں بس گیا لاہور ایسا

Sajid Shah

Sajid Shah

تحریر : ساجد حسین شاہ
engrsajidlesco@yahoo.com
00966592872631