counter easy hit

شاہد آفریدی نے پشاور زلمی کو چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا؟

Afridi decided

Afridi decided

شاہد خان آفریدی نے واضح کیا ہے کہ وہ صرف پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کی کسی ایک فرنچائز تک محدود نہیں، اگر ضرورت پیش آئی تو وہ کسی اور ٹیم میں بھی جا سکتے ہیں۔
لاہور: (یس اُردو) میڈیا رپورٹس کے مطابق قومی ٹی ٹونٹی ٹیم کے سابق کپتان شاہد آفریدی کا کہنا ہے کہ میں ایک پروفیشنل کرکٹر ہوں۔ پی ایس ایل کی کسی بھی فرنچائز کو اگر میری ضرورت ہوئی تو میں اسے اپنی خدمات دینے کو تیار ہوں۔ ایسا نہیں ہے کہ میں صرف پشاور زلمی تک محدود ہوں۔ بوم بوم آفریدی کا مزید کہنا تھا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ میں اس وقت پشاور زلمی ٹیم کا حصہ ہوں، لیکن اگر میں کسی اور ٹیم میں گیا تو مجھے پشاور زلمی کے مالک اور چیئرمین جاوید آفریدی کے ساتھ کچھ چیزیں حل کرنے کی ضرورت پیش آئے گی۔ پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کے پہلے ایڈیشن میں شاہد آفریدی نے پشاور زلمی کی قیادت کے فرائض انجام دیے تھے۔ ان کی سربراہی میں ٹیم نے عمدہ کھیل پیش کیا۔ ذرائع کے مطابق پشاور زلمی کے مالک جاوید آفریدی اور شاہد آفریدی کے تعلقات میں دراڑ آ گئی ہے۔ اسی لیے آفریدی نے فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ کہ پی ایس ایل کے اگلے سیزن کیلیے کسی اور فرنچائز سے معاہدہ کریں گے۔واضح رہے کہ 36 سالہ قومی کھلاڑی کو دورہ انگلینڈ کیلئے قومی ٹیم میں شامل نہیں کیا گیا ہے۔ حالانکہ دورہ کے دوران پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان ایک ٹی ٹونٹی میچ شیڈول ہے۔ شاہد آفریدی کا کہنا ہے کہ انھیں گزشتہ دو تین سال سے آسٹریلیا میں کھیلی جانے والی بگ بیش لیگ کے ہر سیزن میں کھیلنے کی آفر موصول ہو رہی ہیں لیکن اپنی انٹرنیشنل کمٹمنٹس کی وجہ سے میں اس آفر سے فائدہ نہیں اٹھا پا رہا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ لیکن اگر اس سال انھیں بگ بیش لیگ کھیلنے کی دعوت موصول ہوئی تو وہ ضرور کھیلنے جائیں گے۔ چیف سلیکٹر انضمام الحق کے بارے میں بات کرتے ہوئے آفریدی کا کہنا تھا کہ میرا مشورہ ہے کہ انضمام الحق کو قومی ٹیم کے بیٹنگ کوچ کا عہدہ بھی دے دینا چاہیے کیونکہ ایسا اقدام کھلاڑیوں کیلئے بہت فائدہ مند ہوگا۔ شاہد آفریدی نے قومی ٹیم کے کوچ مکی ارتھر کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کا جارحانہ انداز اور نقطہ نظر کھلاڑیوں کیلئے بہت اچھا ثابت ہوگا۔ انہوں نے بتایا کہ میں 2003ء میں جنوبی افریقہ میں ڈومیسٹک سیزن کے دوران ان کی کوچنگ میں کھیل چکا ہوں۔ میں نے انھیں بہت زیادہ جارحانہ پایا تھا۔ اسی جارحانہ پن کی اس وقت قومی ٹیم کو ضرورت ہے