counter easy hit

افغان امن میں روس نے نیٹو کی ناکامی کا خلا پرکرنا شروع کردیا، افغان حکومت اور طالبان کا دورہ ماسکو

اسلام آباد(ایس ایم حسنین) امریکہ میں انتقال اقتدار کے مرحلے کے باعث افغان امن عمل میں تعطل جاری ہے، اس دوران روس کی جانب سے متحرک کردار کا آغاز کیا گیا ہے۔ روس نے افغان امن عمل کے دوبارہ آغاز کے لیے کوششیں شروع کر دی ہیں۔ روسی حکومت افغان عمل میں مثبت کردار ادا کرنےکی خواہاں ہے۔ اس سلسلے میں روسی اور افغان مصالحتی وفود کی آمد و رفت جاری ہے جبکہ روس کی جانب سے خطے میں افغان امن کے اہم کرداروں سے رابطے استوار کیے جا رہے ہیں۔اس سلسلے میں طالبان راہنمائوں اورافغان وزیرخارجہ حنیف اتمر بھی علیحدہ علیحدہ ماسکو کا دورہ کر رہے ہیں۔ غیر ملکی نشریاتی ادارے کے مطابق کابل حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکراتی عمل تعطل کا شکار ہے۔ جو بائیڈن انتطامیہ نے بھی طالبان کے ساتھ ہونے والے امن معاہدے کا از سر نو جائزہ لینے کا عندیہ دے رکھا ہے۔ اس صورتحال میں روس ایک مرتبہ پھر متحرک ہوا ہے۔ طالبان تحریک کے سینیئر رہنماؤں کو بھی اس عمل کا حصہ بنایا گیا ہے۔گزشتہ ہفتے روسی وزارت خارجہ کی ایک خاتون ترجمان ماریا زخاروف نے صحافیوں کو بتایا تھا کہ افغانستان کے وزیر خارجہ محمد حنیف اتمار آئندہ ہفتے ماسکو کا دورہ کریں گے۔ ماریا زخاروف کا مزید کہنا تھا کہ روس افغانستان میں قومی مصالحتی عمل اور فوجی تنازعے کے خاتمے کے لیے خصوصی کوششیں کر رہا ہے۔ روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے خصوصی نمائندے ضمیر کابولوف کا جمعہ 19 فروری کو پاکستان کا دورہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھا اور اسلام آباد میں انہوں نے اعلیٰ حکومتی اہلکاروں سے بات چیت کی ہے۔ اسلام آباد افغان تنازعے اور اس کے حل کے سلسلے میں کیے جانے والے تمام اقدامات میں اول دن سے اہمیت رکھتا ہے۔ روسی اعلیٰ عہدیدار کا دورہ پاکستان غیر علانیہ تھا اور انہوں نے پاک فوج کے سربراہ کے ساتھ ساتھ وزیر خارجہ سے بھی ملاقات کی۔ان ملاقاتوں میں افغان امن عمل پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔حالیہ کچھ عرصے کے دوران افغان امن عمل میں روس کے کردار میں اضافہ ہوا ہے۔ گزشتہ ماہ بھی طالبان کے ایک وفد نے روس کا دورہ کیا تھا۔ طالبان کا یہ کوئی پہلا دورہ نہیں تھا بلکہ طالبان ماضی میں بھی امن مذاکرات کے مشکل دور میں روس کا دورہ کرتے ہوئے امریکا کو اپنی اہمیت کا اندازہ کروا چکے ہیں۔روس کی طرف سے ان کوششوں کا آغاز ایک ایسے وقت میں کیا گیا ہے، جب سوویت یونین کے افغانستان پر حملے کے بعد انخلاء کے بتیس برس مکمل ہو رہے ہیں۔ اس وقت افغان طالبان روس کے خلاف تھے اور ان کا مدد گار امریکا تھا۔ اب صورتحال اس کے برعکس ہے، اب دشمن امریکا ہے اور روس طالبان کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرنے کی کوشش میں ہے۔

پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے تاہم روسی عہدیدار کے ساتھ ملاقات کے بعد ایک بیان میں کہا ہےکہ دونوں ممالک افغان مسئلے کے سیاسی حل کے لیے کوشاں ہیں۔

AFGHAN, PEACE, NIGOTIATIONS, NATO, LOOSING, ITS, PLACE, BUT, RUSSIA, IS, COVERING, THE, SPACE, SUDDENLY

اس سلسلے میں امریکا کی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل کینیتھ ایف میکینزی کے دورے کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اسلام آباد کے دورے کے دوران امریکی جنرل نے پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات کی ہے۔ اس میٹنگ کے بعد جاری ہونے والا بیان بظاہر مبہم قرار دیا گیا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق اس میٹنگ کے ایجنڈے پر بھی افغانستان کے حالات ہی سرفہرست تھے۔

مغربی اتحاد کو مشکل صورت حال کا سامنا

دوسری جانب مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کی رواں ہفتے ختم ہونے والی کانفرنس میں بھی افغانستان کی مشکل صورت حال کے بارے میں بظاہر کوئی عملی پیش رفت نظر نہیں آئی۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ امریکا میں حکومت کی تبدیلی اور ٹرمپ انتظامیہ کی جگہ جو بائیڈن کے منصبِ صدارت پر بیٹھنے سے امن عمل کی مجموعی صورت حال تبدیل ہو کر رہ گئی ہے۔

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website