counter easy hit

حادثات، آخر کب

Accident

Accident

تحریر : عثمان حنیف
ہفتہ اور اتوار کی درمیانی شب خبر آئی کہ ایک ملیر کے پاس نیشنل ہائی وے پر مسافر بس اور آئل ٹینکر مین تصادم ہوگیا ہے، پھر خبروں کا تانتہ بندھ گیا اور حادثے میں جاں بحق ہونے والوں کی تعداد بڑھنے لگی یہاں تک کہ آخری خبر آئی کہ 62 افراد جھلس کر جان جان آفریں کے نام کرگئے ۔جن کی شناخت تک نہیں ہوسکتی۔ بد نصیب بس کراچی سے شکار پور جارہی تھی ، مرنے والوں میں ایک خاندان کے 13اور دوسرے خاندان کے 9 افراد شامل تھے۔

اس سے پہلے کچھ عرصہ پہلے ہی اس طرح کا واقع پیش آیا ہے، نومبر 2014 میں خیر پور میں نیشنل ہائی وے پر سکھر کے قریب بس اور ٹریلر میں تصادم ہوا تھا جس میں 40جانیں ضائع ہوگئیں تھیں۔ اس سے پہلے بھی گڈانی میں پیٹرول ٹینکر اور بس میں تصادم ہوا جس میں 35 لوگ جاں بحق ہوئے تھے۔ ان سب واقعات کے ذکر کا مقصد یہ ہے کہ ہر تھوڑے عرصے بعد یہ واقعات رونما ہورہے ہیں لیکن حکومت اپنی رویتی بے حسی برقرار رکھے ہوئے ہے حکومت کی جانب سے کوئی اقدامات نہیں کیے جارہے۔ بد نصیبی اپنی جگہ لیکن اس طرح کے واقعات سے بچنے کے لیے حفاظتی اقدامات حکومت کی ذمہ داری ہے جو کہ نہیں کی جارہی۔

اس طرح کے واقعات میں ایک نکتہ یکساں ہے کہ ان بسوں میں گنجائش سے زیادہ مسافر بھرے گئے تھے جبکہ ان بسوں میں کسی حادثے کی صورت میں باہر نکلنے کے لیے ایمرجنسی راستہ بھی نہیں ہوتا اور نا ہی آگ بجھانے کے لیے کوئی بندوبست ہوتا ہے۔ بڑی روڈوں پر تیز رفتاری بھی ایک مسئلہ ہے جس کی روک تھام کے لیے شدید اور مستقل اقدامات کی ضرورت ہے۔

اتوار کو ہونے والے حادثے میں بھی بتایا جاتا ہے کہ آتشیں مادہ لے جانے والے ٹرک ڈرائیور کا گاڑی پر قابو نہیں رہا اور پھر حادثہ ہوگیا۔ حادثہ ہوجانے کے بعد موقع پر ریسکیو اداروں کا نہ پہنچنا بھی جانوں کے اتنے بڑے نقصان کی وجہ بنتا ہے اس کیس میں بھی ایسا ہی ہوا۔ حادثات کے لیے کسی کو الزام نہیں دیا جا سکتا لیکن حادثے کے بعد تیزی سے امدادی کارروایاں ہوں تو جانی نقصان کم سے کم ہوسکتا ہے اور اس کے لیے حکومت کو ذمہ دار ٹھہرانہ غلط نہ ہوگا۔ حادثے سے لوگوں کو غم ملا لیکن اس میں اضافہ کرنے والا ہمارا طبی نظام ہے۔

صوبہ سندھ میں ڈی این اے ٹیسٹ کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے لوگ اپنے پیاروں کی شناخت کر کے انہیں دفنا کر اپنے دل کو قرار دے سکیں سندھ حکومت نے اس مرہم رکھنے والے آخری راستے کو بھی روک رکھا ہے۔ جناح اسپتال میں آنے والی لاشوں کے لواحقین سے ڈی این اے ٹیسٹ کے لیے نمونے لیے گئے۔ جو اسلام آباد بھیجے گئے ، وہاں سے 15دن بعد رزلٹ آئیں گے۔

سندھ حکومت نے جگہ بھی مختص کر رکھی ہے لیکن وزارت داخلہ سندھ کی جانب سے این او سی جاری نہ ہونے کی وجہ سے لیبارٹری قائم نہیں کی جارہی اس طرح حکومت سندھ لوگوں کے دکھوں کا مداوہ کرنے کے بجائے ان کے غموں میں اضافے کا باعث بن رہی ہے۔ بس اور آئل ٹینکر حادثے میں جان بحق ہونے والے افراد اپنے پیچھے نہ صرف غم و افسوس بلکہ کچھ بڑے سوالات بھی چھوڑ گئے ہیں۔

تحریر : عثمان حنیف