counter easy hit

لاوارث بچے اور قانون

وہ بچے جن کے والدین مر جاتے ہیں‘کوئی عزیز و اقارب زندہ نہیں ہوتا اور جو زندہ ہوتے ہیں وہ ان یتیم بچوں کو قبول نہیں کرتے، وہ بچے جنھیں سڑکوں، کوڑے دانوں اور یتیم خانوں کے دروازوں پر چھوڑ دیا جاتا ہے، ان میں سے بیشتر کے نام نہیں ہوتے اور اگر نام معلوم ہوتے ہیں تو ان کے والد اور والدہ کے ناموں کا پتہ نہیں چلتا۔ یہ بچے بڑے ہوتے ہیں اور والد کا نام نہیں ہونے کی بنا پر نادرا کے ب فارم نہیں بنتے، شناختی کارڈ نہیں بنتے، یہ خود کو پاکستان کا شہری نہیں کہلوا سکتے۔ ان میں وہ خواجہ سرا بھی شامل ہیں جو بچپن میں گھر چھوڑنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔

ان کے خاندان والے انھیں اپنا نام دینے کو تیار نہیں ہوتے۔ مولانا عبدالستار ایدھی نے جب اپنے دفاتر کے باہر گہوارے نصب کیے اور اپیل کی کہ شیرخواندہ بچوں کو قتل کرنے کے بجائے ان میں ڈال دیا جائے۔ انھیں اسپتالوں، فٹ پاتھوں اور کوڑے خانوں سے جو بچے ملیں ان کے مستقبل کے لیے والد کے لیے اپنا نام دستاویزات میں تحریر کرنا شروع کیا۔ اس طرح بہت سے بچوں کے ب فارم اور شناختی کارڈ بننے میں رکاوٹیں دور ہوئیں۔ عبدالستار ایدھی اور ان کے اہل خانہ کے لیے مختلف نوعیت کی مشکلات پیدا ہوسکتی تھیں مگر ایدھی صاحب ایک بہادر آدمی تھے اور انھوں نے کسی مشکل کی پرواہ نہیں کی۔ اان کی اس مثالی انسان دوستی نے یتیم اور بے سہارا بچوں کے مسئلے کو وقتی طور پر حل کردیا تھا مگر ریاستی سطح پر قانون سازی کی اشد ضرورت تھی۔

کشور زہرا نے اپنی زندگی کا آغاز سماجی کاموں سے کیا۔ کراچی یونیورسٹی کے سماجی بہبود کے شعبہ سے پوسٹ گریجویٹ کی ڈگری حاصل کی۔ معروف سرجن اور سماجی کارکن پروفیسر ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی کی زیر نگرانی انھوں نے سماجی کام شروع کردیے۔ انھوں نے سندھ انسٹیٹیوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹ کے کاموں میں حصہ لینا شروع کیا۔ ایس آئی یو ٹی کے لیے عطیات جمع کرنے شروع کیے۔

وہ ایک ایسے خاندان سے تعلق رکھتی ہیں جس نے سیکولر سوچ، سوشلزم اور جمہوریت کے لیے ہمیشہ جدوجہد کی ہے۔ کشور زہرا متحدہ قومی موومنٹ کے بانی اراکین میں شمار ہوتی ہیں۔ خصوصی افراد کی بہبود کے کاموں کے لیے ہمیشہ متحرک رہیں۔کشور کی خدمات پر ایم کیو ایم کی قیادت نے انھیں قومی اسمبلی کی خواتین کی نشست کے لیے نامزد کیا۔ اس طرح کشور 2008 کے انتخابات میں رکن قومی اسمبلی منتخب ہوگئیں۔کشور اور دیگر اراکینِ اسمبلی میں فرق یہ ہے کہ کشور نے اپنی جماعت کی پالیسی کی حمایت کے علاوہ نادار اور کمزور افراد کی دادرسی کا سلسلہ بھی شروع کیا۔

انھوں نے قومی اسمبلی کی قانون سازی کی طاقت کو استعمال کرنے کی کوشش کی۔کشور نے شناختی کارڈ میں خون کی قسم اور اعضاء کے عطیہ کا کالم درج کرانے کے لیے قومی اسمبلی میں بل پیش کیا۔ قومی اسمبلی میں اراکین کی قانون سازی پر بہت زیادہ دیر لگتی ہے۔ پہلے پرائیوٹ بل کے دن کے موقع پر بل قومی اسمبلی کے ایجنڈا میں شامل کیا جاتا ہے اور پھر اس کو ذیلی کمیٹی کے سپرد کیا جاتا ہے۔ ذیلی کمیٹی مسودہ قانون کا باریک بینی سے جائزہ لیتی ہے، پھر متعلقہ وزارت سے رائے لی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قومی اسمبلی نے اس بل کے مسودے پر بہت دیر تک غور و خوض کیا۔ اب یہ بل تمام مراحل سے گزرنے کے بعد منظوری کے مراحل میں داخل ہوا ہے۔

کشور انسانیت کا درد رکھتی ہیں۔ انھیں اندازہ ہوا کہ بے سہارا اور یتیم بچے والدین کا نام نہ ہونے کی بناء پر کن مشکلات کا شکار رہتے ہیں۔ انھوں نے 2013 میں نیشنل ڈیٹابیس اور رجسٹریشن اتھارٹی آرڈیننس کا مسودہ قومی اسمبلی میں پیش کیا۔ اس مسودہ قانون کے تحت یتیم اور نامعلوم والدین کے بچوں کی رجسٹریشن ہوگی۔ نادرا ان بچوں کے سرپرستوں کے بارے میں تفصیلات کے لیے علیحدہ ڈیٹابیس تیار کرے گا۔ اس ڈیٹابیس میں بچوں اور ان کے سرپرستوں کے بارے میں تمام معلومات درج کی جائیں گی۔ اس مسودہ قانون کی ایک اور شق کے تحت یتیم اور نامعلوم والدین کے بچوں کے سرپرست یا جہاں یہ بچے رہتے ہوں اس جگہ کے انچارج کو تمام معلومات نادرا کو فراہم کرنا ہوں گی۔

جو افراد یہ اطلاعات فراہم نہیں کریں گے انھیں تین ماہ تک قید اور پانچ ہزار روپے جرمانے تک کی سزا ہوسکے گی۔ نادرا یہ معلومات پاکستان بیت المال مینجنگ ڈائریکٹر کو فراہم کرے گا۔ بیت المال کے مینجنگ ڈائریکٹر ان بچوں کے لیے مالیاتی امداد فراہم کریں گے۔ اس مسودہ قانون میں کہا گیا تھا کہ ہر مہذب معاشرہ اور ریاست جو بچوں، خاص طور پر نادار بچوں کی بہبود میں دلچسپی رکھتی ہے وہ یتیم اور نامعلوم والدین کے بچوں کی مدد کرے۔ اس مسودہ قانون کے مقاصد میں کہا گیا ہے کہ ریاست اور معاشرے کی عدم توجہ کی بنا پر یہ بچے بے رحم افراد کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔ پھر بچوں پر جنسی تشدد اور انسانی اسمگلنگ جیسے مکروہ جرائم جنم لیتے ہیں اور بچے مجرمانہ سرگرمیوں مثلاً اونٹوں کی دوڑ اور سیکس ٹریڈ وغیرہ میں شامل ہوجاتے ہیں۔ اس قانون کے تحت ایسے بچوں کی ولدیت کے خانے میں سربراہ ریاست، وزیراعظم، گورنر اور یتیم خانوں کے سربراہوں کے ناموں کا اندراج ہوسکے گا۔

یہ مسودہ قانون 2013 کی قومی اسمبلی کے سامنے پیش کیا گیا تھا۔ اس وقت پیپلز پارٹی کے رہنما یوسف رضا گیلانی کو سپریم کورٹ نے توہین عدالت کی سزا دے دی تھی، اور وہ نااہل ہوگئے تھے۔ پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے راجہ پرویز اشرف کو وزیراعظم نامزد کیا گیا۔ راجہ پرویز اشرف کا مختصر دور ہنگامے کی نذر ہوا۔ وہ اقتدار سنبھالتے ہی کوئٹہ میں ہزارہ برادری کی بستی پر خودکش حملوں اور اس کے نتیجے میں پورے ملک میں دھرنوں کی وجہ سے پیدا ہونے والے حالات، سپریم کورٹ کی جانب سے ان کے خلاف بدعنوانی کے مقدمات سے نبردآزما ہونے کی صورتحال سے نمٹنے میں مصروف رہے، اس طرح یہ اہم بل اسمبلی کے سامنے پیش نہیں ہوسکا۔ پھر اسمبلی تحلیل ہوگئی اور نئی اسمبلی قائم ہوئی۔

خوش قسمتی سے کشور زہرا دوسری دفعہ قومی اسمبلی کی رکن منتخب ہوئیں۔ انھوں نے اس مسودہ کو قانون بنانے کی تحریک جاری رکھی۔ قومی اسمبلی میں پرائیوٹ اراکین کے دن مختصر ہوتے ہیں اور ایجنڈا بڑا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس بل پر ابھی تک قومی اسمبلی نے غور نہیں کیا، یوں یہ قانون نہیں بن سکا۔ وزیراعظم میاں نواز شریف فلاحی ریاست کا نعرہ لگاتے ہیں۔ ان کی حکومت نے کئی اچھے قوانین کو اسمبلی سے منظور کرایا ہے مگر بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ کشور کا اتنا اچھا قانون کے مسودے پر اراکین اسمبلی نے غور نہیں کیا۔ مسلم لیگ کی حکومت پارلیمنٹ کی بالادستی کے نعرے لگاتی ہے مگر وزیراعظم نوازشریف اور ان کے وزرا عملی طور پر پارلیمنٹ کی اہمیت کو بلند کرنے پر توجہ نہیں دیتے۔

وزیراعظم نواز شریف بہت کم قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں شرکت کرتے ہیں۔ عمومی طور پر وہ وزیر خزانہ کی بجٹ تقریر، کسی غیر ملکی سربراہ کی پارلیمنٹ میں تقریر یا کسی انتہائی اہم معاملہ پر اظہار خیال کے لیے ہی قومی اسمبلی تشریف لاتے ہیں۔ ان کے وزرا بھی اپنے وزیراعظم کی پیروی کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ صوبائی اسمبلیوں کے مقابلے میں قومی اسمبلی اور سینیٹ سے خواتین اور بچوں کی بہبود کے لیے قوانین کی منظوری کی شرح کم ہے۔ سینیٹ نے خواتین کی بہبود کے بارے میں قانون کی منظوری دی تھی مگر حکومت نے مذہبی عناصر کی مزاحمت کے خوف سے ان قوانین کو قومی اسمبلی کے سامنے پیش نہیں کیا تھا۔ بعد میں حکومت نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں ان قوانین کو منظور کرایا تھا مگر حکومت کی توجہ لاوارث بچوں کی بہبود کے لیے کشور زہرا کے اس بہتر مسودہ قانون کی طرف نہیں گئی۔

اگر حکومت اس مسودہ پر توجہ دے تو یہ فوری طور پر منظور ہوسکتا ہے۔کشور زہرا نے قومی اسمبلی کے فعال رکن کی حیثیت سے انتہائی اہم مسئلے پر قانون سازی کی کوشش کی ہے، انھوں نے نہ صرف بحیثیت رکن قومی اسمبلی اپنا فرض ادا کیا ہے بلکہ یہ بھی ثابت کیا ہے کہ قومی اسمبلی محض اپنی پارٹی پالیسی کے مطابق مخالفین پر تنقید کا ہی فورم نہیں ہے بلکہ قومی اسمبلی کے ذریعے مفید قانون سازی بھی ہوسکتی ہے۔ کشور نے پارلیمنٹ کے سماجی کردار کو اجاگر کیا ہے، اس طرح عوام میں پارلیمنٹ کی افادیت کا احساس پیدا ہوگا۔

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website