اسلام آباد: نئے مجوزہ احتساب قانون کے مطابق صرف اعلیٰ عدلیہ کے ججز ہی چیئرمین ڈپٹی چیئرمین احتساب کمیشن کے عہدوں پر تعینات ہو سکیں گے جب کہ کوئی بیوروکریٹ یا سابق فوجی افسر دونوں عہدوں پر فائز نہیں ہو سکے گا۔

مسودہ کے مطابق چیئرمین، ڈپٹی چیئرمین کی تقرری وزیراعظم اور قائد حزب اختلاف کی مشاورت سے ہو گی تاہم چیف جسٹس آف پاکستان اور چیف جسٹس متعلقہ ہائیکورٹ کی تائید سے اس عہدے کے لیے نامزد جج سے تقرری کے بارے میں خواہش بھی پوچھی جائے گی۔ اس کے بعد یہ نامزدگی پارلیمانی کمیٹی کو بھجوائی جائے گی اور پارلیمانی کمیٹی پندرہ دن میں اس پر اپنی منظوری دے گی۔ کمیٹی سے منظوری کے بعد وزیراعظم تین سال کے لیے چیئرمین،ڈپٹی چیئرمین اورممبران کا تقررکرے گا۔ان تمام افسران کو توسیع دی جا سکے گی اور نہ ہی ان کا مذکورہ عہدوں پر دوبارہ تقررہو سکے گا۔
دوسری جانب اسپیکر چیئرمین سینیٹ کی مشاورت سے دونوں ایوانوں کی مشاورت سے12رکنی پارلیمانی کمیٹی تشکیل دے گا جس میں 6 ممبران حکومت جبکہ6 حزب اختلاف سے ہوںگے، ممبران دونوں ایوانوں میں سیاسی جماعتوںکے ممبران کی تعدادکو مدنظررکھتے ہوئے لئے جا سکیںگے۔ان شقوں پر پارلیمانی کمیٹی کے ممبران کا اتفاق ہوچکا ہے۔ مسودے میں جرنیلوں یا ججوں کو احتساب کے دائرمیں لانے کی کوئی شق موجود نہیں ہے تاہم عوامی عہدیدارکی تعریف کے حوالے سے بل کی شق2 کی ذیلی شق (m)اور سروس آف پاکستان کی تعریف کے حوالے سے ذیلی شق(v)کی تعریف بھی مسودے میں موجود نہیں ہے۔
وزیر قانون کے مطابق ان تعریفوں کے حوالے سے ابھی تک فیصلہ نہیں ہو سکا تاہم پیپلز پارٹی کے رہنما فرحت اللہ بابر کی جانب سے انہی تعریفات میں جرنیلوں اور ججزکو شامل کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ واضح رہے کہ موجودہ چیئرمین نیب قمر زمان چوہدری کل منگل کو عہدے سے سبکدوش ہو رہے ہیں اور نئے نامزد چیئرمین نیب جسٹس(ر)جاوید اقبال کی تقرری پہلے سے موجود قانون کے مطابق ہوگی۔








