تحریر: زینب ملک ندیم
کبھی کبھی ہمارا دل کرتا ہے ہر موضوع پر لکھوں، ہر بات کو بیان کروں اپنے ہر ایک ایک لفظ کر ذبان دوں بہت سے موضوع ہیں جو توجہ کے طلبگار ہیں ان میں ایک بات ہے جو ہر شے پر غالب آ جاتی ہے اور وہ ہے ہمارے گمراہ ہونے کا ہمارے بھٹک جانے کاـ ہر سوچ کو صفحہ قرطاس پر اتارنے کا دل کرتا ہے ـآج ہم خود مسلسل بیچینی کا شکار ہیں سکون ہماری ذات کو میسر نہیں ہیں ـہر لمحہ بے چینی ، غصہ چڑچڑاپن ہماری زندگی کا اہم حصہ بن چکا ہے ـہم کبھی کبھار تنہائی میں سوچتے ہیں کے سارے غم دکھ تکالیف ہماری ذات کیساتھ ہی کیوں پیوست ہیں کیوں غموں نے ہماری دہلیز پر ہی قدم رکھ لیا ہے اور مڑنے کا نام ہی نہیں لے رہیں ـ
کیوں وہ سکون میسر نہیں جو ہمارے ابائو اجداد کو میسر تھا سوچتے سوچتے ہم سمند کی تلاطم خیز موجوں کی زد میں آجاتے ہیں مسلسل کی سوچ دماغ کو پریشان کردیتی ہے ـخود سے ہم سوالات پر سوالات کرتے ہیں اور جواب کی تلاش میں نہیں دوڑتے یا ہم جواب تلاش ہی نہیں کرنا چاہتے ـتو جواب یہ ہے کہ ان تمام باتوں کی وجہ ہے ہماری بے راہ واری ہمارا برے راستوں کا تعین کرلینا ہمارا اس راہ کی جانب نہ جانا جس راہ کو ہمارے لیئے اچھا کہا گیا ہےـجب ہم نماز نہیں پڑھتے تو سکون کیسا؟جب ہم قرآن کی تلاوت نہیں کرتے ذکر الہی نہیں کرتے تو تحمل مزاجی کیسی ؟جب ہم نبیوں کی باتوں پر عمل نہیں کرتے تو کامیابی کیسی؟ہم ہر سوال کا جواب جانتے ہیں مگر عمل.نہ ہونے کے برابر اور جو لوگ لگاتار گناہ کرتے ہیں ان کے لیئے اور معافی مانگ لیتے ہیں اس کیلئے بھی میری ایک پیاری آپی عطیہ خان نے ایک تفسیر لکھی جس نے میرے ذہن سے تمام کثافتوں کو ہٹا دیا
اسلام علیکم
بسم اللہ الرحمن الرحیم
آج آیت نمبر ہ کی تفسیر پڑھینگے
آیت نمبر کا ترجمہ
اللہ تعالی نے ان کے دلوں پر اور کانوں پر مہر لگا دی ہے اور کی آنکھوں پر پردہ ہے اور ان کے لیے بڑا عذاب ہے.ـ
تفسیر
(اس آیت میں جن لوگوں کے دلوں پر مہر لگا دی گء ہے وہ ابو جھل اور ابو لہب وغیرہ ہیں )
یہ ان لوگوں کے عدم ایمان کی وجہ بیان کی گء ہے کہ کفر کی وجہ سے ان کے دلوں سے قبول حق کی استعداد ختم ہو چکی ہے ان کے کان حق بات سننے کے لیے آمادہ نہیں اور ان کی نگاھیں رب کائنات کی نشانیاںدیکھنے سے محروم ہیں تو وہ اب ایمان کس طرح لا سکتے.. ؟کیونکہ ایمان تو ان لوگوں کے حصیمیں آتا ہے جو اللہ کی دی ہوئی صلاحیتوں کا صحیح استعمال کرتے اور ان سے معرفت حاصل کرتے ہیں.
اس کا صحیح مفہوم ایک حدیث سے وضاحت کرتی ہوں..
“مومن جب گناہ کر بیٹھتا ہے تواس کے دل میں سیاہ نقطہ پر جاتا ہے اور جب وہ اس گناہ کی معافی یعنی وہ توبہ کر لیتا ہے تو اللہ وہ نقطہ ہٹا کر دل کو شفاف کر دیتا ہے اور اگر وہ توبہ کے بجاٰئے گناہ پر گناہ کرتا جاتا ہے تو تو وہ سیاہ نقطہ پھیل کر اس کے پورے دل پر چھا جاتا ہے ”
نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا…
“یہی وہ زنگ ہے جسے اللہ تعالی نے بیان فرمایا ”
یعنی “ان کے کرتوتوں کی وجہ سے ان کے دلوں پر زنگ ہے.”
#ترمذی’تفسیر مطففین…
یعنی مہر لگانے کا مطلب ہے
اد تفسیر سے صاف واضع ہے ـ
جب انسان گناہ کے پہاڑ پر چڑھنے لگتا ہے تو اس کے دل پر سیاہ نقطئہ پرجاتا ہے ـاور جب ہم برے عمل کرتے ہیں تو ہمارے اپنیہمارے لیئے سو دروازے بند کردیتے ہیں مگر ایک دروازہ ہے جو ہمیشہ اللہ پاک کی طرف سیہمارے لیئے کھلا رہتا ہے ـاور وہ دروازہ ہے توبہ کا کے جب ہم توبہ کرلیتے ہیں تو وہ سیاہ دھبہ مٹ جاتا ہے اور اللہ اپنے بندوں کو مایوس نہیں کرتا اور دوسرے وہ لوگ ہوتے ہیں جو برائی کے پہاڑ پر چڑھتے ہیں تو چڑھتیہی جاتے ہیں وہ نقطئہ پھیلتا جاتاہے اور مہر لگ جاتیہے ان لوگوں کو اچھے برے کی پہچان نہیں رہتی یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو توبہ نہیں کرتے غرور اکھڑ میں رہتے ہیں اور لگاتار گناہ کرتے ہیں اور ان کے کرتوت ہی ہیں.جو ان کے دلوں پر مہر کا باعث بنتے ہیں نہ وہ پہچان کرسکتے ہیں کے گناہکیا ہے اور نیکی کیا ہے ـ
آج ہم میں سے بہت سے لوگ ایسے ہیں جو گناہ کرتے ہیں اور توبہ کرلیتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اللہ ستر مائوں سے ذیادہ پیار کرتا ہے اور معاف کردیتا ہے اور وہ سب اللہ کے غیظ و غضب سے بھی واقف ہیں کہ جب اللہ رسی کھینچتا ہے تو کیا ہوتا ہے مگر بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جو معافی نہیں مانگتے جب تک گناہ نا کرلیں بعض نہیں آتے ایسے لوگوں کی رسی داراز ہے جو حاکم بنتے اور مظلوم پر ظلم کر خود کو بڑا سمجھتے ہیں حلانکہ ایک ذاتہے اوپر جو قل کائنات کی خالق و مالک ہے جس کے قبضے میں ہر انسان کی جان ہے وہ پاک پروردگار ایک بار رسی کھینچ لے تو ہمارا نام و نشاں نا رہے اس فانی دنیا میں اس دنیا میں جس کوہم اپنا سمجھے ہوئے ہیں ـپیارے بہن بھائیو : ہماری حیات کا مقصد وہ نہیں ہے جس کو آج ہم اپنا مقصد سمجھ رہے ہیں ہماری زندگی کا اصل مقصد تو صرف اللہ کی راہ پر چلنا ہے اس کی عبادت کرنا ہےـ
“اور اللہ نے جن و انس کو اپنی عبادت کیلئے پیدا کیا” ہمارا مقصد ہے اس دوڑ میں آگے رہنا جو دن میں پانچ وقت ہمارے لیئے مقرر کی گئی ہے جو ہمارے لیئے کامیابی لیئے ہوئی ہے اور وہی دوڑ ہمیں اللہ کی طرف لے جاتی ہے ـایک بار جب انسان اللہ کے آگے سجدہ ریز ہوتا ہے تو وہ اللہ کے بیحد قریب ہوتا ہے انسان سکون محسوس کرتا ہے اور جب وہ اپنی انگلیوں پر زکر خدا کرتا ہے تو اس کے دل کو ٹھنڈک ملتی ہے اور جب وہ قرآن پڑھتا ہے تو اس کے دل کو اس کی روح کو سکون ملتاہےـ
ہماری زندگی کی تمام الجھنیں اس وقت ہی ختم ہوں گی جبہم اللہ کی جانب دوڑیں گیں نہ کے اس دنیا کی آسائشوں اور اس مال کے پیچہے جو ہم قبر میں اور آخرت میں ساتھ نہیں لے جاسکتے ہم تو اپنے اعمال اچھے بنا سکتے ہیں ـاور انہی رستوں پر زندگی کا ہر سکون میسر ہے ـاللہ کے بتائے رستوں پر چلنے سے ہر تکلیف ہر دکھ ختم ہوجاتا ہے ـکیونکہ ہر امتحان میں یہ کامل وثوق ہوتا ہے کہ اللہ ہے نا وہ سب بہتر کرے گا ـاللہ ہم سب کو نیک بنائے اور ان رستوں پر چلائے جوہماری ذات کیلئے بہتر ہیں ـاللہ ہمیں ویسا بنائے جیسا وہ چاہتا ہے اور ان لوگوں میں شامل کرے جن سے وہ بیحد محبت کرتا ہے اور ہم سب کو ہدایت دے آمین
تحریر: زینب ملک ندیم