تحریر : میر افسر امان
” جو لوگ چاہتے ہیں کہ ایمان لانے والوں کے گروہ میں فحش پھیلے وہ دنیا اور آخرت میں درد ناک سزا کے مستحق ہیں۔ اللہ جانتا ہے تم نہیں جانتے”( النور :١٩) یہ آیت جھوٹے الزام کے متعلق ہے۔کسی پر بہتان لگانا اور پھر اس کی اشاعت کرنا تاکہ مسلم معاشرے میں بد اخلاقی پھیلے، وہ درد ناک سزا کے مستحق ہیں۔ بے حیائی اور فحشاء سے مراد جنسی دست درازی اور عیاشی ہے ۔ اور عموماً یہ مرد اور عورت کے آزادانہ ملاپ سے پیدا ہوتی ہے۔ اس لیے اسلام نے مرد اور عورت کے لیے علیحدہ علیحدہ راستوں کا تعین کر دیا ہے۔ بے حیائی اور فحاشی عموماً عورتوں سے پھیلتی ہے اس لیے اسلام نے اسے اس کا م سے روکنے کی کوشش کی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ازدواج رسول اللہ، امہات المومنین کو بہت اونچا مقام عطا کیا ہے۔ وہ مسلمان عورتوں کی آئیڈیل ہیں۔ اسلامی معاشرے میںعورت جب ماںہو تو اسلام نے اس کے قدموں میں جنت رکھی ہے۔ میاں اور بچے معاش کما کر اپنی والدہ کے پاس جمع کرتے ہیں پھر ماں آمدنی سے گھر کا خرچ چلاتی ہے۔
اکثر مسلم گھرانوں میں مرد دن کا خرچہ گھر کی خواتین سے لے کر جاتے ہیں۔ عورت جب بیوی ہے تو مرد پر اس کے حقوق فرض کیے ہیں۔ اسلام میں عورت پر روزی کمانے کا بوجھ نہیں ڈالاگیا۔ بلکہ معاش کمانے کا بوجھ صرف مرد پر ڈالا ہے۔ مرد کا یہ کام ہے کہ کمائی کر کے اپنی بیوی بچوں کی پرورش اور نگہداشت کرے۔ عورت اگر بیٹی ہے تو باپ کا کام ہے کہ اس کی پرورش کرے ۔اسے بہترین اخلاق سکھائے اور جب وہ جوان ہو جائے پھر اس کی شادی کا انتظام کرے حدیث کا مفہوم ہے کہ جس نے دو بیٹیوں کی پرورش کی اُن کو اخلاق سکھائے وہ جنت میں جائے گا۔ اسلام میں عورت کا مقام اس کا اپنا گھر ہے۔ وہ اپنے گھر کی ملکہ ہے۔ وہ اپنے میاں کی غیر حاضری میں گھر کی دیکھ بھال کرتی ہے۔ بچوں کی پرورش، تعلیم اور ان کے اخلاق کی کا خیال کرتی ہے۔ جن مسلم گھروں میںان باتوں پر عمل کیا جاتا ہے وہ گھر جنت کی نظیر پیش کرتے ہیں اور جن گھرانوں کومغرب کی نکالی کرنے میں لگا دیا گیا ہے ان کی زندگی اجیرن بن گئی ہے۔مغرب نے عورت کو گھر کی ملکہ کے بجائے شمع محفل بنا دیا ہے جس کی وجہ سے ان کے معاشرے میں بے حیائی اور فحاشی پھیل گئی ہے۔ مغرب کا معاشرہ تباہی کی طرف گامزن ہے۔ اس نقشہ مغرب کا ایک امریکی مفکر رابرٹ ماسکن کچھ اس طرح کھینچتا ہے ” ہماری نئی نسل تمام اخلاقی پاپندیوں سے آزاد ہو چکی ہے۔
یہ آزادی سے شراب پیتی ہے اور جوا کھیلتی ہے اور باہم جنسی روابط قائم کرتی ہے۔ نتیجہ یہ کہ پورا ملک شدید اخلاقی بحران کا شکار ہو جاتا ہے۔ آپ کو جا بجا منشیات کے عادی نوجوان، حاملہ دو شیزائیں، کنواری مائیں اور حرامی بچے غول کے غول نظر آئیں گے۔ اگر یہ صورت حال اسی طرح باقی رہی تو امریکہ جرائم پیشہ، اوباشوں اور وحشیوں کا ملک بن جائے گا” امریکا کی بے شمار لڑکیان حاملہ ہو جانے کی وجہ سے تعلیم چھوڑ جاتی ہیں،اسکولوں میں حاملہ طالبات کی تعداد پچاسی فیصد تک جا پہنچی ہے خواتین کی اس بے راہی کی وجہ سے امریکامیں طلاق کی رعداد بہت بڑھ چکی ہے۔١٩٦٠ء میں اٹھارہ لاکھ عورتوں کو طلاق ہوئی تھی اور ان ٹوٹے ہوئے گھرانوں کے بچوں کی تعداد ایک کروڑ تیس لاکھ تک جا پہنچی ہے”حوالہ کک میگزین اشاعت ستمبر ١٩٦٣ء عنوان مضمون صفحہ ٧٤sexual morality” کیا مسلم معاشرہ مغرب کی طرح بے حیائی اور کھلی فحاشی کی طرف نہیں بڑھ رہا؟ ہمارے کالجوں میں مخلوط تعلیم، ہمارے پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا میں بے حیائی اور فحاشی نہیں پھیل رہی؟ ہمارے مغرب زدہ اشرفیہ نے مغربی معاشرہ اپنا نہیں لیا؟جس طرح مغرب نے عورت کو اپنا ہر پروڈکٹ فروخت کرنے کے لیے استعمال کیا کہ ہمارے سرمایا دار اپنے پروڈکت فروخت کرنے کے لیے استعمال نہیں کر رہے؟
جیسے مغرب نے کلب لائف اور فائیو اسٹارز ہوٹلنگ کو رواج دیا ہمارے معاشرے میں نہیں در آئے؟ جیسے مغرب نے لڑکوں اور لڑکیوں کے آزادانہ ماحول کو جنم دیا تھا ہمارے ہاں ایسا نہیں ہو رہا؟ مغرب میں ان سب واقعات کی وجہ سے معاشرہ جس تنزل میں گِھر کر تباہ ہوا۔ ہمارے اُس کی شروعات نہیں ہو چکیں؟ اس لیے قرآن شریف میں فرمایا گیا ہے کہ” عیاش اور شہوت پرست لوگ یہ چاہتے ہیں کہ تم بھی گناہ کی طرف جھک جائو”(النساء ٢٧) بلکہ اللہ تعالیٰ مسلم معاشرے سے مخاطب ہو کر کہتا ہے کہ”اور بے شرمی کی باتوں کے قریب بھی نہ جائو۔وہ کھلی ہوں یا چھپی”(الانعام ١٥١) اسی تسلسل میںمولانا مودودی سورة النحمل کی آیت نمبر٩٠”اور بدی و بے حیائی اور ظلم و زیادتی سے منع کرتا ہے” کی تشریع کرتے ہوئے، تفہیم القرآن میں حاشیہ ٨٩ میں لکھتے ہیں” پہلی چیز فحشاء ہے جس کا اطلاق تمام بیہودہ اور شرمناک افعال پر ہوتا ہے۔ ہر وہ برائی جو اپنی ذات میں نہایت قبیح ہو فحش ہے۔ مثلاً بخل، زنا، برہنگی و عریانی، عمل قوم لوط، محرمات سے نکاح کرنا،
چوری، شراب نوشی بھیک مانگنا،گالیاں بکنا اور بدکلامی کرنا وغیرہ۔ اسی طرح علی الا علان بُرے کام کرنا اوربُرائیوں کو پھیلانا بھی فحش ہے، مثلاًجھوٹا پروپیگنڈا، تہمت تراشی پوشیدہ جرائم کی تشہیر، بدکاریوں پر اُبھارنے والے افسانے اور ڈرامے اور فلم، عریاں تصاویر، عورتوں کا بن سنور کر منظر عام پر آنا، علی الاعلان مردوں اور عورتوں کے درمیان اختلاط ہونا، اور اسٹیج پر عورتوں کا ناچنا اور تھرکنا اور ناز و ادا کی نمایش کرنا وغیرہ دوسری چیز منکر ہے، جس سے مراد ہر وہ بُرائی ہے جسے انسان بل لعموم بُرا جانتے ہیں ، ہمیشہ سے بُرا کہتے رہے ہیں ،اور تمام شرائعِ الٰہیہ نے جس سے منع کیا ہے۔
تیسری چیز بغی ہے، جس کے معنیٰ ہیں: اپنی حد سے تجاوز کرنا اور دوسرے کے حقوق پر دست دارازی کرنا،خواہ وہ حقوق خالق کے ہوں یا مخلوق کے” جہاں تک بے حیائی کا تعلق ہے تو کسی بُرے خیال سے دل میں جھجک، شرمندگی اور بے قراری پیدا ہوتی ہے۔ اس کا نام حیا ہے۔ اور جس انسان کی قلبی کیفیت ایسی ہو کہ کسی بُرے کا کرنے یا کسی بُری بات کو منہ سے نکالنے یا کسی فرض سے منہ موڑنے کے خیال ہی سے وہ جھجک اور بے چینی کا شکار ہو جاتا ہو، اس کے متعلق کہا جائے گا کہ وہ حیادار ہے۔ اللہ تعالیٰ مسلم معاشرے کو آخرت کی سزا سے محفوظ رکھے اور اُن برائیوں سے بچائے جس میں ملوث ہو کر مغربی معاشرہ تباہ و برباد ہواآمین۔
تحریر : میر افسر امان