counter easy hit

بشریٰ بی بی صاحبہ : مجھے اور کسی سے امید نہیں آپ ہی مظلوموں کا وسیلہ بن جائیں

لاہور (ویب ڈیسک) عید کا پُرمسرت دن ہے‘ رحمت دوعالمؐ نے گلی سے گزرتے ہوئے ایک معصوم بچے کو روتے دیکھا۔ پتہ چلا سب بچے نئے کپڑے پہن کر باپ کی انگلی پکڑے عیدگاہ کی طرف جا رہے ہیں۔ وہ یتیم ہے اور اس خوشی سے محروم ہے۔ دُر یتیم کا دل بھر آیا‘ بچے کو گلے لگایا اور فرمایا نامور کالم نگار اسرار بخاری اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔میں تیرا باپ ہوں۔ بچے کو گھر لے گئے۔ اسے نہلا دھلا کر نئے کپڑے پہنائے گئے۔ جو ممکن ہے حسنؓ اور حسینؓ کے ہو سکتے ہیں۔ پھر اس بچے کو انگلی پکڑ کر عیدگاہ لے گئے۔ ایک یتیم کے ساتھ شفقت کا یہ مظاہرہ امت کیلئے سنت ڈھل گیا ہے۔ خاتون اول بشریٰ خان کی گھر سے باہر جو سرگرمی نظر آئی‘ وہ ان کے یتیم خانوں کے دورے ہیں جس سے یتیموں کیلئے ان کا وہی درد کا اظہار ہوتا ہے۔ ان کے علاقے ساہیوال میں اس مقام سے چوبیس کلومیٹر دور جہاں ان کی صاحبزادی سے پولیس اہلکار بدتمیزی کے مرتکب ہوئے تھے‘ ادیبہ نامی ایک بیٹی کو اس کے ماں باپ کے ساتھ گولیوں سے بھون دیا گیا۔ اس سفاکانہ عمل کے مرتکبین بھی پولیس کے ہی ایک شعبہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ مرنے والوں کے تین کمسن بچے یتیم ہوگئے۔ ان معصوموں نے جس خوفناک صورتحال کا سامنا کیا‘ یہ زندگی بھر اس کے زیراثر نفسیاتی مسائل کا شکار رہیں گے۔حکومت پنجاب نے بچوں کیلئے دو کروڑ روپے کا اعلان کیا ہے۔ یہ نہ تو کوئی بہت بڑی رقم ہے اور نہ ہی ان بچوں کیلئے دائمی دکھ کا مداوا ہے۔ بہرحال یہ رقم ان بچوں کو رکھنے والے کو تین بچوں کے بوجھ سے ضرور آزاد کر سکتی ہے۔ مجھے یقین ہے یتیموں سے اظہار ہمدردی کرنے والی خاتون اول کا بھی پوری قوم کی طرح دل دکھی ہوا ہوگا۔ لہٰذا ان بچوں کے سر پر دست شفقت رکھنے کیلئے وہ آگے بڑھیں۔ حکومت نے ان بچوں کی کفالت کا جو اعلان کیا ہے‘ اس پر عملدرآمد اپنی نگرانی یقینی بنائیں۔ سب سے پہلے دو کروڑ روپے ان تینوں بچوں کے نام سے بنک میں جمع کرائے جائیں اور بالغ ہونے تک ہر ماہ بنک منافع کی رقم انہیں ملتی رہے تاکہ انہیں رکھنے والے چاچے‘ ماموں کو زیادہ بوجھ محسوس نہ ہوسکے۔ بالخصوص ایسے وقت میں جب غریب کیا‘ متوسط طبقے کے لوگوں کیلئے اپنے بچے پالنا مشکل ہورہاہے۔ دوسرے حکومت ان بچوں کے تعلیمی اخراجات برداشت کرے۔ تیسرے فوری طورپر ماہرین نفسیات کی ایک ٹیم مقرر کی جائے جوان بچوں کو اس جانکاہ سانحہ کے صدمہ سے باہر لانے کی کوشش کرے۔ حکومتی دعوئوں کے مطابق ذیشان اگر دہشت گرد تھا‘ فیصل آباد میں مارے جانے والے دہشت گرد عثمان کے ساتھ سیلفی اور زیراستعمال گاڑی کا تعلق مرنے والے دوسرے دہشت گرد عدیل حفیظ سے ثابت ہو گیا تو کسی نے اس کے خلاف سی ٹی ڈی ایکشن کی مخالفت نہیں کی بلکہ اس ایکشن کے انتہائی بھونڈے پن پر اعتراض ہے جس سے دو ماہ باپ اپنی بیٹی سمیت ہلاک اور تین معصوم بچے یتیم ہو گئے۔ انگلیاں اس بات پر اٹھی ہیں کہ پاکستان میں بے گناہ افراد کو بھونڈے پن سے مارا جا رہا ہے۔