قصور میں زینب کے قتل کے خلاف احتجاج کے دوران فائرنگ سے جاں بحق 2 نوجونواں کی نماز جنازہ قصور کے کالج گراؤنڈ میں ادا کردی گئی۔

زیادتی کے بعد قتل کی گئی 7 سالہ زینب کی آہوں اور سسکیوں میں گزشتہ روز تدفین کی گئی ۔ ملزمان کو اب تک گرفتار نہیں کیا جا سکا۔ دوسری جانب آج قصور میں دوسرے روز بھی احتجاج کا سلسلہ جاری ہے اور شہر میں شٹرڈاؤن ہڑتال کی جارہی ہے۔شہر کے تمام بازار اور اسکولز بند ہیں۔ مشتعل مظاہرین نے ڈسٹرکٹ اسپتال کے سامنے ٹائر نذرآتش کر کے شدید احتجاج کیا اور توڑ پھوڑ کے دوران اسپتال کا مرکزی دروازہ بھی توڑ دیا، مظاہرین نے مطالبہ کیا کہ زینب قتل کے ملزمان کو فوری گرفتار کر کے سخت سے سخت سزا دی جائے۔ وکلا کی جانب سے زینب کے قتل کے خلاف ہڑتال اور یوم سیاہ منایا جارہا ہے، اسلام آباد بار ایسوسی ایشن کی جانب سے بھی ہڑتال کی گئی۔
ترجمان پنجاب حکومت نے کہا کہ مظاہرین کا غم و غصہ پولیس کے خلاف ہے، گزشتہ روز پولیس کی جانب سے فائرنگ نہیں ہونی چاہیے تھی اور اس کا دفاع بھی نہیں کیا جاسکتا، مظاہرین پولیس کی گاڑی کو دیکھتے ہی اس پر حملے کر رہے ہیں۔ وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف آج صبح سویرے 5بجے قصور میں کمسن بچی کے گھر آمد اہل خانہ سے اظہار تعزیت کے لیے پہنچے۔ اس موقع پر ان کا کہنا تھا کہ جب تک مجرم کو کٹہرےمیں نہیں لائیں گے چین سے نہیں بیٹھیں گے۔
ذرائع کے مطابق رات گئے حساس اداروں کی ٹیم نے متاثرہ خاندان کے بیانات قلمبند کیے، واقعے کے شواہد بھی جمع کئے گئے ہیں۔ ذرائع کے مطابق فائرنگ کے الزا م میں 2 پولیس اہلکار وں کے علاوہ 2 سول ڈیفنس اہلکاروں کو گرفتار کرلیا گیا ہے، جبکہ مقتولین کے بھائیوں کی مدعیت میں 2 مقدمات نامعلوم 16پولیس اہلکاروں کے خلاف درج کرلیے گئے جس میں قتل کی دفعات شامل ہیں۔








