برطانوی ساحل سے کچھ دور واقع اس جزیرے میں دفن ہڈیاں اور کھوپڑیاں سمندری کٹائو کی وجہ سے اب پانی پر نمودار ہو رہی ہیں

دو صدیاں قبل جب جیل خانوں کے طور پر استعمال ہونیوالے برطانوی بحری جہازوں پر مجرموں کی موت ہوجاتی تھی تو ان کی اجتماعی تدفین اس جزیرے پر کی جاتی تھی۔ انیسویں صدی میں یہاں مجرموں کی بہت بڑی تعداد کو دفن کیا گیا لیکن اب ساحلی کٹائو کی وجہ سے ان مجرموں کی ہڈیاں اور کھوپڑیاں ساحل پر نمودار ہو رہی ہیں۔ تاریخ دانوں کا کہنا ہے کہ انیسویں صدی میں برطانوی حکومت نے متعدد جنگی بحری جہازوں کو تیرتے ہوئے قید خانوں میں بدل دیا تھا۔ ان میں وہ مجرم قید کئے جاتے تھے جنہیں انیسویں صدی کے آغاز میں ملک بدر کر کے برطانوی نو آبادیاتی علاقوں کی جانب روانہ کیا جاتا تھا۔
ان میں سے جو بھی مجرم مر جاتا اسے واپس لیجانے کے بجائے موت کے جزیرے پر لیجا کر دبا دیا جاتا تھا۔ تاریخ دان پروفیسر ایرک گروک کہتے ہیں کہ ان بحری جیل خانوں پر اکا دُکا اموات تو ہوتی رہتی تھیں لیکن 1830 کی دہائی میں ہیضے کی وبا پھوٹ پڑنے سے قیدیوں کی بہت بڑی تعداد ہلاک ہوئی اور ان سب کو لیجا کر موت کے جزیرے پر دفن کر دیا گیا۔ یہ انہی قیدیوں کے ڈھانچے ، کھوپڑیاں اور ہڈیاں ہیں جو جزیرے کے سمندری کٹائو کے باعث اب قریبی سمندری علاقے میں تیرتی نظر آتی ہیں۔








