
قائدِاعظمؒ اس جہاں فانی سے رخصت ہو گئے، مگر افسوس اس بات کا ہے کہ ہم نے بہت جلد ہی اپنے اس محسن کو بھلا دیا جس نے ہمیں پاکستان جیسا خوبصورت اور انمول تحفہ دیا۔ مقامِ افسوس ہے کہ آج تک ہم اپنے قائد کی تاریخِ پیدائش تک پر متفق نہیں ہوسکے۔ بعض لوگ ان کا یومِ ولادت 20 اکتوبر قرار دیتے ہیں تو بیشتر لوگ 25 دسمبر کو ان کی سالگرہ مناتے ہیں۔ قائدِاعظمؒ کی جائے پیدائش کے حوالے سے بھی اب تک ٹھوس شواہد کے ساتھ مقام کا تعین نہیں کیا جا سکا۔ اس سلسلے میں ان کی ابتدائی درس گاہوں کرسچن مشن اسکول اور سندھ مدر سۃ الاسلام میں بھی ان کی تاریخِ پیدائش کا اندراج ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ اب تک ہم اس بات پر بھی اتفاق نہیں کرسکے کہ وہ جھرک میں پیدا ہوئے یا کراچی میں۔ اسی طرح ہم میں سے بیشتر لوگ یہ نہیں جانتے کہ ان کی آخری آرام گاہ کب اور کیسے تعمیر ہوئی۔

21 جنوری 1956 کو وفاقی کابینہ نے مزارِ قائد کی تعمیر کا فیصلہ کیا۔ مزار کے ڈیزائن کےلیے ایک بین الا قوامی مقابلہ منعقد کروایا گیا جس میں یحییٰ مرچنٹ کے پیش کردہ ڈیزائن کی منظوری دے دی گئی۔ تعمیراتی کام کا با قاعدہ آغاز 8 فروری 1960 کو کیا گیا اور 31 مئی 1966 کو مزار کا بنیادی ڈھانچہ مکمل کر لیا گیا۔ 12 جون 1970 کو عمارت کو سنگ مرمر سے آراستہ کرنے کا کام پایہ تکمیل کو پہنچا۔
پھر دسمبر 1970 میں چینی مسلمانوں کی ایسوسی ایشن کی جانب سے 81 فٹ لمبا خوبصورت فانوس کا خوبصورت تحفہ دیا گیا جسے مزارِ قائد کے گنبد میں نصب کر دیا گیا۔ فانوس میں 41 طاقتور برقی قمقمے نصب تھے۔
مزار کی تعمیر پر آنے والے تمام اخراجات، جو 1 کروڑ 48 لاکھ روپے تھے، عوام کے چندوں اور وفاقی و صوبائی حکومت کے عطیات سے پورے کیے گئے۔ مزارِ قائد کی اونچائی سطح سمندر سے 91 فٹ بلند رکھی گئی، اس کا کل رقبہ 131.58 ایکڑ ہے جس پر بعد میں خوبصورت باغات لگائے گئے، راہ داریاں بنائی گئیں اور فوارے و آبشاریں نصب کی گئیں۔
15 جنوری 1971 کو مزارِ قائد باضابطہ طور پر شہریوں کےلیے کھول دیا گیا جس کے بعد سے عوام کا ایک جم غفیر روزانہ بابائے قوم حضرت قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے مزار پر فاتحہ خوانی کےلیے آتا ہے۔
1995 میں مزار کو مزید خوبصورت اور سرسبز بنانے کی منظوری دی گئی اور اس کا نام ’’باغِ قائد اعظم‘‘ رکھ دیا گیا۔ مزار کے احاطے میں لینڈ لائٹس، ٹاپ لائٹس اور زیرِ آب لائٹس کا جال بچھا دیا گیا جس کے بعد مزار قائد مکمل طور پر ایک جدد باغ بن گیا۔ مزار میں داخل ہونے کےلیے مختلف ناموں سے 5 دروازے بنائے گئے ہیں جنہیں بابِ جناح، بابِ قائدین، بابِ تنظیم، بابِ امام اور بابِ اتحاد کا نام دیا گیا۔

اس کا انتظام ’’مزارِقائد مینجمنٹ بورڈ‘‘ چلاتا ہے۔ اس سلسلے میں مزار مینجمنٹ بورڈ کے ڈائریکٹر عارف حسن سے ان کے دفتر میں گفتگو ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ باغ قائد اعظمؒ محبتوں کا امین ہے جہاں روزانہ ہزاروں کی تعداد میں لوگ نہ صرف مزار پر حاضری دیتے ہیں بلکہ بابائے قوم حضرت قائد اعظم محمد علی جناحؒ کو خراج عقیدت بھی پیش کرتے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ مزارِ قائد مختلف ممالک کے درمیان پاکستان کے تعلقات کے فروغ کےلیے بھی خدمات انجام دیتا ہے۔
چین نے پاکستان سے دوستی مضبوط کرنے کےلیے آج سے 46 سال قبل مزارِ قائد کو ایک فانوس کا تحفہ پیش کیا تھا۔ 46 سال گزر جانے کے بعد چین نے فانوس پرانا ہوجانے کے پیش نظر گزشتہ سال ایک اور فانوس کا تحفہ دیا جس کا وزن 2 من اور قطر 28 مربع میٹر ہے؛ جبکہ اس میں 48 برقی قمقمے اور 8.3 کلو گرام سونے کا بھی استعمال کیا گیا ہے۔ اس فانوس کو نصب کرنے کےلیے چین سے انجینئروں اور ٹیکنیشنز کی 13 رکنی ٹیم پاکستان آئی جس نے پچھلے سال 5 نومبر کو فانوس کی تنصیب کا کام مکمل کیا۔ پرانے فانوس کو مزارِقائد کے احاطے میں ہی بطور یادگار رکھا گیا ہے۔ یہ دونوں فانوس چین اور پاکستام کی دوستی کو مزید مضبوط کرنے میں اہم کردار ادا کریں گے۔
اس موقع پر چین سے فانوس نصب کرنے کےلیے آنے والے ٹیکنیکل ہیڈ، مسٹر چاؤنگ اور مسٹر ڈیوڈ سے بات چیت ہوئی۔ انہوں نے بھی اس بات کا اعتراف کیا کہ قائدِاعظمؒ ایک عالمی لیڈر تھے جن کی شخصیت کو چین میں بھی پورے عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مزار قائد پر فانوس کی تنصیب ان کےلیے نہ صرف ایک یادگار لمحہ تھا بلکہ ایک ایسا اعزاز تھا جسے وہ کبھی فراموش نہیں کرسکیں گے۔ اس موقع پر ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ فانوس کی تنصیب سے دونوں ممالک کے لوگ ایک دوسرے کے مزید قریب آئیں گے اور ان کے درمیان محبتوں میں بے پناہ اضافہ ہو گا۔
نوٹ: ادارے اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو ابھی قلم اٹھائیں اور اپنا بلاک لکھ کر
moarifatkazmi@gmail.com
پر بھیج دیں
مختار احمد کا تعلق صحافت ہے اور اِس وقت کراچی کے ایک اخبار سے وابستہ ہیں۔









