counter easy hit

کیا کہا سستا انصاف۔۔۔۔۔۔۔ہوش میں تو ہو

قارئین کرام!پولیس کا نظام شہریوں کو تحفظ دینے کے لیے مگر افسوس کہ آج اگر ہم پاکستانی کہیں پر پولیس کا ناکہ دیکھ لیں تو لٹنے کا خوف ہوتا ہے۔پولیس کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے سارے سیاستدان ہی بڑے بڑے دعوے کرتے ہوئے نظر آتے ہیں مگر افسوس ایسا نہیں ہوتا۔میری ادنی سوچ کے مطابق سستا انصاف ایک ہی صورت میں مل سکتا ہے کہ تھانوں کو خودمختار کردیا جائے۔یعنی آج بھی پولیس افسران کو سیاستدانوں اور سیاسی ٹاوٹوں کی جانب سے دباو دیا جاتا ہے اور پھر یہ صاحبان چند روپے یا دھمکیوں کے عوض اپنی منوانے اور اپنے مطابق انصاف کرانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔اگر کسی غریب پہ ظلم کیا جارہا ہو اور ظالم کسی سیاستدان کا چمچہ ہو تو پھر ظالم کو ظالم ثابت کرنا بھی ناممکن ہوجاتا ہے۔میرٹ کا نظام تو میرے دیس کے یہ نڈر،باضمیر اور عوامی خدمتگار ایسا ہی چاہتے ہیں۔قارئین کرام عام طور پر جھوٹ کا عادی تو آج کل ہر سیاستدان ہی ہے۔جو ایک دفعہ کسی ٹاک شو میں بیٹھ کر بلند و بالا دعوے کرلے۔سینکڑوں جھوٹ بولنے کے بعد اپنے حلقے کی عوام کو بھول جاتا ہے۔یہ بھول جاتا ہے کہ کس کی وجہ سے وہ آج اس اسمبلی کا منہ دیکھنے کے قابل ہوا ہے۔اپنے آپ کو عوام کا حقیقی خدمتگار اور انصاف پسند شخص دکھلانے والا جب اپنے کسی ٹاوٹ یا چمچے کو پھنستا ہوا دیکھتا ہے تو پھر وہ سچ پہ ہو یا جھوٹ پہ اس کو بے قصور ثابت کرنا اس کا نصب العین ہوتا ہے
ایک اور مسئلہ بھی حیران کن ہے کہ پولیس افسران کی تقرریاں اور تبادلوں کے پیچھے بھی ہمارے ان سیاستدانوں کے دست مبارک ہوتے ہیں۔اپنا رعب و دبدبہ قائم رکھنے کے لیے اپنے انتخابی حلقوں میں من پسند اہلکاروں کی تعیناتی کرانا اور اگر کوئی میرٹ کو اپنا شعار بنانے لگے تو رشوت کی پیشکش کرنا۔اگر پیشکش قبول ہوجائے تو ٹھیک ورنہ وہاں سے اس کا تبادلہ کرا دینا۔یہ ہے ہمارے سیاستدانوں کا فرض۔اگر ان کے کسی لاڈلے اور ان کی مخالف پارٹی کے بندے کے درمیان کوئی تنازعہ چل رہا ہو تو اپنی قوت دکھانے کے لیے اپنے عہدے کا غلط استعمال بھی آج میرے باضمیر عوامی نمائندوں کا ہی فرض ہوتا ہے۔معاشرے میں ایسے نجانے کتنے واقعات ہوئے ہیں کہ مجرم کو بریت ملی۔مظلوم کو فقط سلطان کی مخالفت پر سلاخوں کے پیچھے جانا پڑتا ہے۔انتقامی کارروائیوں کے بعد ہمارے یہی عوامی نمائندے ٹی وی سکرین ہر یا جلسہ عام میں بہت ہی معصومیت سے انصاف کے بھاشن دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔لیکن سستا اور حقیقی انصاف تبھی ممکن ہے جب ظالم کو ظالم کی نگاہ سے دیکھا جائے اور مظلوم کو مظلوم کی نگاہ سے نہ کہ ظالم کو رئیس،خان یا شاہ جبکہ مظلوم کو تنگ دست،لا چار اور غریب سمجھ کر اسے ٹالتے رہنا۔اس کو روز بلوانا مگر انصاف نہ کرنا۔اتنا ذلیل کرنا کہ وہ اس ظالم سے معذرت کرنے پر آمادہ ہوجائے۔میرے کپتان ریاست مدینہ میں گورے کو کالے پر،عربی کو حجمی پر یا امیر کو غریب پر کوئی فوقیت حاصل نہیں تھی۔جو ظالم تھا وہ ظالم تھا جو مظلوم تھا وہ مظلوم تھا۔عمران خان صاحب بے شک ہم نے بانوے کا ورلڈ کپ جیتا ہوا ہے۔بے شک ہم چیمپئین ہیں۔مگر خدا کے واسطے پولیس کے گلے سے یہ طوق ہمیشہ کے لیے اتار ڈالیں اور اگر انصاف ممکن نہیں تو پھر اس نظام کو ریاست مدینہ کا نظام مت کہیں۔پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہو کرتیں مگر یہ سچ ہے کہ اکیسویں صدی کے جدید دور میں بھی پولیس کسی کے حکم کی منتظر نظر آتی ہے۔دو دو دن تو یہ پتہ چلانے میں لگ جاتا ہے کہ ملزم کا کس سیاسی شخصیت سے تعلق ہے یا کس سیاسی جماعت سے تعلق ہے۔
تھانے میں کام ہو اور بغیر کسی رشوت یا سفارش کے ہوجائے یہ تو کوئی معجزہ ہی سمجھیے۔میں وطن عزیز کے تمام سیاسی رہنماوں،سیاسی چمچوں اور سیاسی ٹاوٹوں سے اپیل کرتا ہوں کہ خدارا تھانوں کو چلنے خدارا عوام کو انصاف فراہم کرنے دو۔کوئی رکاوٹ کھڑی نہ کرو مت بھولو کہ یہی عوام آپ کی کتنی عزت کرتی ہے۔پہلے جانچ تو لیا کرو کہ کون سچا ہے کون جھوٹا ہے۔خدارا اس ملک کو چلنے دو۔۔۔۔۔۔۔میں سستا انصاف چاہتا ہوں۔جب بھی کسی بے بس غریب کی تھانوں میں غربت کی وجہ سے بے عزتی سنتا ہوں تو دل خون کے آنسو روتا ہے۔