counter easy hit

کیا واقعی میرے پاس تم ہو؟؟؟؟؟؟۔ تحریر و تحقیق سبطین عباس ساقی

قارئین کرام! سوشل میڈیا سے معلوم ہوا کہ نجی چینل پر میرے پاس تم ہو کے نام پر نشر کیے جانے والے ڈرامے کی ہفتہ کو آخری قسط تھی۔یقینا آپ میں سے بھی کسی نے دیکھا ہوگا۔آخری قسط کے اختتام سے ہی سوشل میڈیا پر دانشوروں اور دانشوڑوں کا ایک جم غفیر اس پر جگت بازی اور اپنا تجزیہ پیش کررہا ہے۔سنا ہے تقریبا دو گھنٹے کی قسط تھی۔ڈائریکٹر کی محنت سے ہی سینما گھروں میں کروڑوں روپے کی ٹکٹیں انتہائی کم وقت میں فروخت ہوئیں۔اب تک سوشل میڈیا پر جس طرف بھی دیکھا جائے میرے پاس تم ہو پر تجزیے ہی نظر آئیں گے۔لیکن یہ دانشوڑ حضرات ڈرامے کے کردار کی موت پر تو آسمان سر پہ اٹھا رہے ہیں۔اگر آپ کو یاد ہو تو پاکستان کی شہ رگ جی بالکل کشمیر کی بات کررہا ہوں وہی کشمیر کہ جہاں پہ آج کشمیری مودی قصائی کے ظلم و بربریت کے آگے بے بس ہماری طرف دیکھ رہے ہیں۔مگر ان کو کیا معلوم کہ پاکستانی قوم میں احساس ہمدردی اتنی ہے کہ ڈرامے کے ایک کردار کو مرتے دیکھ لے تو سوشل میڈیا کو سر پر اٹھا لیتی ہے۔مگر ہاں حقیقت سے ہمیں کوئی لینا دینا نہیں ہم کیوں کشمیر کی فکر کریں ہم نے تو بس انٹرٹینمنٹ کی چیزوں پہ تبصرے کرنے ہیں ہم نے تو بس سکون سے سوشل میڈیا پر اپنا دانشمندانہ تجزیہ تحریر کرتے رہنا ہے۔ہم اس کی کیا فکر کریں کہ فلسطین پر قبضہ ہوچکا ہے۔ہم کیوں اسرائیل کے بارے میں سوچیں۔مگر ہاں آپ کو یاد دلاتا ہوں کہ برما،فلسطین اور کشمیر سمیت دنیا میں مسلمانوں کا قتل عام کیا جارہا ہے۔بچیوں کی عصمت دری کی جارہی ہے(جو اب پاکستان میں بھی عام ہوتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے)۔مگر ہمیں اس سے غرض نہیں۔پاکستانی یوں خاموش ہیں کہ گویا ان کو مسلمانوں کے لیے آواز اٹھانے کے لیے سانپ سونگھ جاتا ہے۔فلسطین کے مسلمانوں پہ ظلم ہورہا ہے تو جی ہم تو کچھ نہیں کرسکتے۔ہمیں تو بس کوئی ایک دلچسپ موضوع مل جائے اور بس پھر سوشل میڈیا پر ہمارے دانشمندانہ تجزیے کی تعریف کی جائے۔الحمداللہ میں نے اس ڈرامے کی ایک قسط بھی نہیں دیکھی۔ڈراموں سے نکل کر حقیقت کو دیکھنا چاہیے۔مگر پاکستانی قوم تو اب دانش(ڈرامے کے کریکٹر) کے غم میں ڈوبی ہوئی ہے۔اس کو ڈرامائی ہارٹ اٹیک آگیا برا ہوا۔مگر کشمیر برما فلسطین میں جو ہوا اس پہ تو ہم کچھ لکھ نہیں سکتے ہمارے ہاتھ میں چھالے پڑ جاتے ہیں۔اس میں تو ہمیں اکتاہٹ ہوتی ہے۔مجھے خواجہ آصف صاحب کا وہ جملہ یاد آرہا ہے “کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیا ہوتی ہے”۔کیا پاکستانی قوم اب ایسے غیر اخلاقی ڈراموں پر تجزیہ کرے گی اور اگر کشمیر کے بارے میں کچھ پوچھا جائے تو لگتا ہے زبان کو چھالے ہیں۔میرے خیال میں ڈائریکٹر نے قوم کی اصلیت سب کے سامنے لا کر رکھ دی ہے کہ یہ قوم اتنی خود غرض ہے کہ اس کے لیے تو نیند حرام کردیتی ہے جس سے اسے اکتاہٹ نہ ہو۔مگر حقیقت پر دو لفظ لکھنے یا بولنے سے پرہیز کرتی ہے۔ڈرامہ کردار کی ڈرامائی موت نہیں بلکہ حقیقت میں ہمارے سوئے ہوئے ضمیر کی حقیقی موت واقع ہوئی ہے۔اپنے ضمیر سے دریافت کریں کہ کیا واقعی میرے پاس تم ہو؟؟؟