counter easy hit

تم کوئی اچھا سا رکھ لو اپنے ویرانے کا نام

محمد بلال غوری

ایک تھا بادشاہ۔
چونکہ ملک میں بادشاہت کی باتیں ہو رہی ہیں تو سوچا کیوں نہ میں بھی قارئین کو تین مختلف بادشاہوں کی کہانی سنائوں ۔پہلی کہانی کا آغاز ہوتا ہے۔ 164ہجری کا سال ہے اور منصور تخت نشین ہے۔ بغداد پہنچ کر قاصد کو حکم دیا کہ امام ابو حنیفہ کے نام بادشاہ وقت کا فرمان لے کر جائے اور انہیں پائے تخت میں حاضر ہونے کا پیغام دے۔امام ابو حنیفہ بنو امیہ کی لڑائیوں سے دق ہو کر مکہ معظمہ چھوڑ چکے تھے اور ان دنوں کوفہ میں مقیم تھے۔شاہی فرمان کے عین مطابق دربار میں حاضر ہوئے تو یہ کہ کر متعارف کروایا گیا کہ حضرت کرہ ارض کے سب سے بڑے عالم ہیں۔منصور نے پوچھا،آپ نے کہاں سے کسب فیض پایا؟کن کن اساتذہ سے تعلیم حاصل کی؟امام ابو حنیفہ نے جید علمائے کرام کا نام لیا۔منصور نے کہا،بس آپ کی اسی لیاقت کے پیش نظر ہم نے آپ کیلئے قاضی القضاۃیعنی چیف جسٹس کا منصب تجویز کیا ہے۔ حضرت کو معلوم تھا کہ بادشاہی میں قاضی القضاۃ کی کرسی پر بیٹھ کر عدل و انصاف نہیں ہوتا بلکہ بادشاہ کی خواہشات کی تعمیل ہوتی ہے چنانچہ انکار کر دیا اور کہا کہ میں اس منصب کے لائق نہیں۔
منصور نے غصے سے پھنکارتے ہوئے کہا،ہم جانتے ہیں کہ آپ اس منصب کی اہلیت رکھتے ہیں اور جھوٹ بول رہے ہیں۔
حضرت نے مسکراتے ہوئے کہا ،عالی جاہ! اگر آپ کا یہ دعویٰ درست ہے کہ میں جھوٹ بول رہا ہوں تو بھلا ایک جھوٹا شخص قاضی القضاۃ کے منصب کا اہل کیسے ہو سکتا ہے؟
دوسری کہانی شرو ع ہوتی ہے دو پرندوں کے ذکر سے۔ایک کبوتر اور ایک کبوتری دانا پانی کی تلاش میں اڑتے پھر رہے تھے۔ پرندے آب و دانہ کی تگ و دو میں گھومتے پھرتے اپنی آماجگاہ سے کوسوں دور نکل گئے اور راستہ بھٹک گئے۔بھٹکتے ہوئے وہ ایک ویرانے میں جا پہنچے جہاں وحشتوں کے ڈیرے اور الوئوں کے بسیرے تھے۔اندھیرا پھیل رہا تھا اور اب ان کے پاس واپس جانے کی مہلت نہیں تھی۔دونوں ایک ٹنڈ منڈ درخت کے سوکھے ہوئے تنے پر جا بیٹھے۔کبوتر نے کبوتری سے کہا،لگتا ہے اس جنگل میں الوئوں کا بسیرا ہے اسی لئے تو چاروں طرف ویرانی اور بے سروسامانی ہے۔پاس ہی الوئوں کا ایک جوڑا بیٹھا ان کی باتیں سن رہا تھا۔انہوں نے اجنبی پرندوں کو پیشکش کی کہ وہ چاہیں تو رات ان کے آشیانے میں بسر کر سکتے ہیں ۔کبوتر اور کبوتری نے قیام و طعام کی پیشکش قبول کر لی۔ شب بسری کے بعدجب سورج کی کرنیں پھیلنے لگیں اور صبح ہوئی تو ان دونوں نے اپنے میزبانوں کا شکریہ ادا کیا اور جانے کی اجازت چاہی۔الو نے کبوتر سے کہا ،تم جاتے ہو تو خوشی سے جائو مگر میری بیوی کو کہاں لے جاتے ہو؟کبوتر نے سمجھا الو مذاق کر رہا ہے،اس نے ہنستے ہوئے کہا ،یہ تو کبوتری ہے ،تمہاری بیوی کیسے ہو سکتی ہے؟مگر الو اس بات پر اڑ گیا کہ کبوتری اس کی ہی بیوی ہے اور وہ کسی صورت اسے ساتھ لے جانے کی اجازت نہیں دے گا۔جب بحث و تکرار بڑھی تو الو نے کہا چلو ہم دونوں عدالت چلتے ہیں اور جج سے یہ فیصلہ کروا لیتے ہیں کہ کبوتری کس کی بیوی ہے۔کبوتر فوراً تیار ہو گیا۔مقدمہ عدالت میں پیش ہوا تو دونوں نے اپنے اپنے  موقف کو سچ ثابت کرنے کیلئے دلائل دیئے ۔کبوتر نے کہا ،مائی لارڈ ! یہ تو بہت سیدھا اور سادہ سا معاملہ ہے۔جیسے کوئی شیرنی کسی گیدڑ کی بیوی نہیں ہو سکتی،جیسے کوئی بلی کتے سے شادی نہیں کر سکتی ویسے ہی کوئی کبوتری کسی الو کی بیوی کیسے ہو سکتی ہے؟یہ میری بیوی ہے ،براہ کرم ہم دونوں کو یہاں سے جانے کی اجازت دی جائے اور اس الو کو ہمیں پریشان کرنے پر سزا دی جائے۔مگر عدالت نے الو کے حق میں فیصلہ سناتے ہوئے اسے کبوتری کو ساتھ لے جانے کی اجازت دیدی۔ساتھ ہی عدالت نے شیر کی بادشاہت پر کڑی تنقید کی اور جنگل کے جانوروں سے کہا کہ وہ اپنے ساتھ ہونے والی بے انصافیوں پر اٹھ کھڑے ہوں۔جب الو اور کبوتر عدالت سے باہر نکلے تو کبوتر کی آنکھوں میں آنسو تھے اور وہ خود کو بہت بے بس  و لاچارمحسوس کر رہا تھا۔الو نے اس کی ڈھارس بندھائی اور کبوتری اس کے حوالے کرتے ہوئے کہنے لگا،دوست یہ تمہاری ہی بیوی ہے۔تکلیف کیلئے معذرت مگر میں تو صرف یہ بات ثابت کرنا چاہتا تھا کہ جیتے جاگتے اور آباد جنگل شیر کے ظلم یا الوئوں کے بسیرا کرنے سے ویران نہیں ہوتے بلکہ ناانصافی کے باعث تباہ برباد ہو تے ہیں۔
اور اب آخری اور تیسرا واقعہ بھی سن لیں۔نوشیروان اور اس کا وزیراعظم بزرجمہر کسی ویرانے میں سوکھے ہوئے درخت کے نیچے بیٹھے تھے کہ اچانک دو الو اسی درخت کی ٹہنی پر آبیٹھے اور باتیں کرنے لگے۔نوشیروان کا وزیراعظم پرندوں کی بولیوں سے واقف تھا۔بادشاہ نے پوچھا،بزرجمہر!بتائو تو یہ الو آپس میں کیا باتیں کر رہے ہیں؟بزرجمہر نے کہا،بادشاہ سلامت! یہ دونوں اُلو آپس میں رشتہ کرنا چاہ رہے ہیں ۔ایک اُلو دوسرے اُلو سے اپنے بیٹے کیلئے رشتہ مانگ رہا ہے مگر لڑکی کا باپ مطالبہ کر رہا ہے کہ جہیز میں اس کی بیٹی کو دس ویران بستیاں دی جائیں۔بزرجمہر یہ کہ کر خاموش ہو گیا تو بادشاہ نے پوچھا،آگے بتائو۔لڑکے کا باپ جواب میں کیا کہہ رہا ہے؟بزرجمہر نے کہا ،حضور والا! وہ بات گستاخی کے مترادف ہے اگر جان کی امان پائوں تو عرض کروں۔نوشیروان نے جان کی امان دیدی تو بزرجمہر نے کہا،وہ الو جو لڑکے کا باپ ہے کہ رہا ہے کہ بھلا یہ بھی کوئی بات ہے۔جب تک نوشیروان اس ملک پر تخت نشین ہے ،اجڑی بستیوں اور ویرانوں کی کیا کمی ہے۔تم دس ویرانے مانگ رہے ہو ،میں تمہیں 100ویرانے جہیز میں دینے کوتیار ہوں۔
راوی بیان کرتے ہیں کہ اس واقعہ کے بعد نوشیروان نے ظلم و ستم سے توبہ کر لی اور پھر نوشیروان عادل کے نام سے مشہور ہو گیا۔یہ تینوں واقعات محض فرضی اور تخیلاتی ہیں ،جو قارئین موجودہ حالات سے مطابقت و مشابہت ڈھونڈنا چاہ رہے ہیں ،ان سے گزارش ہے کہ ’’غریبان ِچمن ،تم کوئی اچھا سا رکھ لو اپنے ویرا نے کا نام

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website