counter easy hit

یمن کے حوثی باغیوں کے عزائم و سعودی عرب کا اندازِ مذمت

Saudi Arabia Bombs Attack Yemen

Saudi Arabia Bombs Attack Yemen

تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم
آج وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یمن اور سعودی عرب کے درمیان جاری کشیدگی سنگین سے سنگین تر ہوتی جا رہی ہے اور جیسے جیسے یمن کے حوثی باغیوں کی جارحانہ کارروائیوں میں تیزآتی جارہی ہے عالمی سطح پر بھی حوثی باغیوں کے عزائم اور مقاصد دنیا کے سامنے عیاں ہوتے جا رہے ہیں۔

یمن میں پھنسے502پاکستان وطن پہنچ گئے ہیںاور اطلاع ہے پاک بحریہ کا فریکیٹ بھی عدن روانہ ہوگیاہے یعنی یہ کہ یمن کے حوثی باغیوں نے پاکستانیوں کے لئے یمنی زمین تنگ کرنی شروع کردی ہے جس کا حکومت پاکستان کو شدت سے احساس ہواتو اِس نے یمن سے پاکستانیوں کو نکالنے اقدامات کئے اور مزیدکرنے کے لئے بھی تیارہے یمنیوںکا پاکستانیوں کے ساتھ نارواسلوک اِن کی پاکستان سے نفرت کا واضح ثبوت ہے اگر یمنی حوثیوں کا یہی رویہ رہاتواِس بات کابھی خدشہ ہے کہ پاکستان سے جو منفی اثرسامنے آئے گااِس کی زد میں خطے کے بہت سے ممالک بھی آسکتے ہیں۔

اگرچہ اَب اِس سارے منظر اور پس منظرمیں نظرتو یہی آرہاہے کہ یمن کی موجودہ ساری خراب و سنگین صورتِ حال کے اصل ذمہ دار حوثی باغی ہیں جنہوں نے ایران کی سپورٹ لے کر یمن میں خانہ جنگی کا ساماحول پیداکررکھاہے اور اَب جس کے منفی اثرات یمن و سعودی عرب کے علاوہ مشرقِ وسطیٰ سمیت پاکستان پر بھی پڑسکتے ہیں ایسے میںپاکستان سمیت اُمتِ مسلمہ کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ یمن اور سعودی عرب پر اپنادباو¿بڑھاہیں کہ طاقت کی بدولت مسائل کا حل نکلنا دیرپانہیں ہوتاہے دونوں ممالک اپنے مسائل افہام وتفہیم اور بامقصدمذاکرات سے نکالیں یوں یمن کا ایران کا آلہءکار بن کر خود کو جنگ وجدل کی وادی میں جھونکناکسی بھی صورت نہ صرف یمن بلکہ مشرقِ وسطی ٰ کے خطے کے لئے بھی کارآمدنہیں ہوگا۔ اگرچہ یمن اور سعودی عرب کے درمیان جاری جنگی صورتِ حال میں دنیا واضح طور پر شیعہ اور سُنی دھڑوں میں بٹی دکھائی دے رہی ہے اور اُمتِ مسلمہ کے بعض ممالک جن میں بالخصوص پاکستان بھی شامل ہے اِن ممالک کی حکومتوں اور اپوزیشن کی جماعتوں کے درمیان ظاہری وباطنی ایک ایسی کشمکش پیداہوچکی ہے اِن ممالک میں جن کے اثرات آنے والے وقتوں میں واضح ہوتے جائیں گے۔

اَب اِس سے انکار نہیںہے کہ پاکستان جو دنیا کی ایک مکمل اور بااعتماد اسلامی اور پہلی ایٹمی ریاست ہے اِس میں سعودی عرب کے فرماں رواشاہ سلمان کی پاکستان سے ساتھ مانگنے کی خصوصی درخواست پر حکومت اور اپوزیشن جماعتوں میں کچھ تحفظات اور اندیشے پائے جاتے ہیں جن کی وجہ سے حکومتِ پاکستان واضح اور دوٹوک انداز سے یہ فیصلہ نہیں کرپارہی ہے کہ یمن اور سعودی عرب کی جاری جنگ میں سعودی فرماں رواکی پاکستان سے ساتھ مانگنے کی درخواست یا پریشر پر حکومتِ پاکستان کو کیااور کیسا کردار ادا کرنا چاہئے ….؟؟کہ سعودی عرب بھی ناراض نہ ہو ا ور اپوزیشن کی جماعت سے بھی نابگڑے ۔ جہاں تک مشرقی وسطی ٰ کی موجودہ صورتِ حال میں سعودی عرب کے فرماں رواشاہ سلمان کی پاکستان سے ساتھ مانگنے کی درخواست یا پریشر کی بات ہے تو اِس پرتو حکومتِ پاکستان کاجواب جلدیادیر ہاں کی جانب آتا نظردِکھائی دے رہا ہے مگر وہیں دوسری جانب جب حکومت اپنی اتحادی اور اپوزیشن جماعتوںکے اِس معاملے میں تحفظات اور خدشات کودیکھتی ہے تو اپنی زبان سے ہاں کا لفظ اداکرنے سے رک جاتی ہے۔

اُدھر ایک طرف حکومتی اتحادیوں اور اپوزیشن جماعتوں کا یمن اور سعودی عرب کے درمیان جاری جنگ میں سعودی فرماںروا کا پاکستان سے ساتھ مانگنے کی درخواست پر موقف درست اور سمجھ میںآنے والاہے کہ ” ماضی میں بھی امریکا سے آنی والی ایک فون کال کے دباو¿ میں حکمرانوں نے تھوڑی سی امریکی مددکی جو حامی بھری اور خودکو امریکی جنگ کا حصہ بنایا… تب سے ابتک امریکاکی اِس جنگ میں امریکاسے زیادہ نقصان پاکستان کو ہی اُٹھاناپڑاہے اور آج ایک مرتبہ پھر حکومتِ پاکستان کو ایسی ہی کیفیت سے دوبارہ دوچارہوناپڑرہاہے اَب ایسے میں یہاںحکومتِ پاکستان کوایک بار پھر کسی کی جنگ میںفرنٹ لائن کا حصہ بننے سے پہلے سومرتبہ ضرور یہ سوچناچاہئے کہ اِس جنگ میں پاکستان کو خود کو بھسم کرنے سے کیا اور کسیے نقصانات کا سامناکرناپڑسکتاہے …؟؟اورآئندہ دِنوں ، ہفتوں ، مہینوں ، سالوں اور صدیوں میں اِس کے پاکستان پر کیسے منفی اثرات مرتب ہوںگے …؟؟اگر اِن تمام سوالات کے کہیں سے مثبت جوابات آئیں تو پھر حکومت ِ پاکستان اور عسکری قیاد ت کو سعودی عرب کی جنگ میں خود کو جھونکنے اور بھسم کرنے کے لئے حامی بھرلینی چاہئے اور اگرجوابات پہلے کی جنگوں سے حاصل ہونے والے جانی اور مالی نقصانات جیسے آئیں تو پھر کوئی ضرورت نہیںکہ ہم کسی کی ایک فون کال اور پریشرمیں آکر ساتھ دینے کی حامی بھر کر اپناہی نقصان کئے جائیں اورپھرہمارے ہاتھ ایک مرتبہ پھر سوائے کفِ افسوس کے کچھ بھی نہ آئے۔

سو..!!اَب ہمارے حکمرانوں ، سیاستدانوں، عسکری قیادت اور قومی اداروں کے سربراہان اور متحرک پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیاسمیت سوشل میڈیاکوبھی سعودی عر ب کی مددکی درخواست کے حوالے سے عوامی سطح پر ایک راہ ہموارکرنی چاہئے کہ پھر جس سے جیسے مثبت اور منفی جوابات یا عوامی آراسامنے آئے تو ہمارے حکمران مُلکی مفادات و استحکام اور سا لمیت اور خودمختاری کو سامنے رکھتے ہوئے اُن جوابات اور آرا کی روشنی میں فیصلے کریں تاکہ بعد کے اچھے یابُرے نتائج آنے کی صورت میںسب ہی ذمہ دار ہوں۔ بہرحال …!!آج یمن میں خودکو انصاراللہ اور زیدی کہنے والے حوثی باغیوں نے اپنے عزائم کی تکمیل اور اپنے مقاصد کے حصول تک یمن کو خانہ جنگی کی نظرکرنے کی ٹھان لی ہے اَب اِن حوثی باغیوں کے بارے میں جان لینا اور اِن سے متعلق معلومات حاصل کرنا بھی بہت ضروری ہوگیاہے کہ یہ حوثی کون ہیں…؟؟ اور اِن کے عزائم اور مقاصدکیا ہیں …؟؟ حوثی باغی ماضی میں خود کو انصاراللہ اور زیدی کیوں کہلاتے تھے..؟؟ اور بعد میں یہ حوثی کیوں اور کیسے بن گئے …؟؟جب ماضی میں یہ خود کو اِنصاراللہ اور زیدی کہلاتے تھے تو تب اِن کے کیا عزائم تھے …؟اور اَب جب یہ خود کو حوثی کہلانے میں فخرمحسوس کررہے ہیں اور یمن کو خانہ جنگی کی کیفیات سے دوچارکرنے پر کیوں تُلے بیٹھے ہیں….توہم یہاں اپنے پڑھنے والوں کو اِن کے بارے میں بتاناچاہتے ہیں تاکہ قارئین کی سمجھ میں وہ ساری باتیں آسانی سے آسکیں ہم جو اگلی سطور میں سمجھاناچاہتے ہیں۔

نہ صرف یہ بلکہ جب اور جہاں کہیں بھی حوثیوں سے متعلق کچھ لکھا، پڑھااور سُنایاجائے ہمارے قارئین کی سمجھ میں وہ ساری باتیں اور واقعات آجائیں جوعالمی سطح پر حوثیوں کے عزائم اور کارروائیوں کی وجہ سے سامنے آئیں گیںیا یمن اور سعودی عرب کے دومیان جاری جنگ سے رونماہونے والی بُری و اچھی تبدیلیوں کے اثرات مرتب ہوں تو حوثیوں کے قول وفعل سامنے رہے ۔
بہرحال…!!عالمی تحقیقاتی اداروں نے حوثیوں سے متعلق ایک رپورٹ مرتب کی ہے جو پچھلے دِنوں سامنے لائی گئی ہے، ہم یہاں یمن کے حوثی باغیوں سے متعلق تحقیقاتی اداروں کی رپورٹ کا خیرمقدم کرتے ہوئے بس اتناضرورعرض کرناچاہیں گے کہ آج تحقیقاتی اداروں نے یمن کے حوثی باغیوں اور اِن کے عزائم کے بارے میں جو رپورٹ مرتب کی ہے بیشک وہ من وعن درست ہے اور آج جب کہ مشرقی وسطیٰ اور بالخصوص یمن اور سعودی عرب کے درمیان جاری کشیدگی کے باعث عالمی اور مشرقی وسطیٰ میں ہونے والی حالیہ تبدیلیوں اور تناو¿ کی صورت حال کو سمجھنے اور سمجھانے کے لئےیہ ایک جامع اور مفصل رپورٹ ہے۔

یمن کے حوثی ماضی میں خود کو انصاراللہ اور زیدی کہلاتے تھے یہ اہل تشیع فرقہ 1962ءتک شمالی یمن میں ایک تہائی اکثریت رکھتے تھے زیدی فرقے نے 740ءمیں اُس وقت کے سُنی خلیفہ کا تحتہ اُلٹ کراقتدارسنبھالاتھایوں اِس نے ایک ہزارسال تک حکومت کی اِس طرح حوثیوں نے 1962ءتک اپنے زورِ بازو شمالی یمن میں اپنی حکومت قائم رکھی چونکہ یمن میں تیل کی دریافت1980ءمیں ہوئی اور 2001ءمیں اِس کی پیداوار4لاکھ 40ہزاربیرل یومیہ تھی مگرگزشتہ کئی برسوں سے اِن کی آپس کی مسلسل ٹیشن اور سیاسی کشمکش جاری رہنے اور امورمملکت میں عدم توجہ کے باعث تیل کے نئے ذخائر کی دریافت پر توجہ نہ دی گئی اور2014ءمیں یہ گھٹ کر صرف ایک لاکھ بیرل یومیہ تک رہ گئی آج یمن کے موجودہ حوثی ہیںاِس یمنی حوثی فرقے نے خودکوحوثی کہلوانااپنے لیڈربرالدین ال حوثی سے نسبت کے بعد شروع کیا جس نے اپنی کارروائیاں2004میں مربوط ومنظم اندازسے شروع کیںاِسی دوران حوثیوں کے لیڈربرالدین ال حوثی یمنی فوجیوں کے درمیان جاری ایک جھڑپ میں ماراگیااور یوں یمن میں حوثی شددپسندباغیوں کا سلسلہ زورپکڑتاگیااور آج یہ نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ یمن کے حوثی باغیوں نے اپنے عزائم کی تکمیل تک یمن کو شیعہ شددپسند حوثی باغیوں کے ہمراہ خانہ جنگی کی طرف دھکیل دیاہے ہم یہاں اپنے پڑھنے والوں کو یہ بھی بتاتے چلیں کہ یمن کے حوثی باغیوں کی ایران اپنی مکمل سپورٹ کررہاہے اور اِس کے ساتھ ہی یہ بھی بتادینابہترسمجھتے ہیں کہ یمن اور سعودی عرب کی سرحدیںایک دوسرے کے ساتھ کافی طویل رقبے اور کلومیٹرتک پھیلی ہوئیں ہیں۔
یہاں ہم نے اپنے قارئین کی معلومات کے لئے یمن کے حوثی باغیوں سے متعلق چند چیدہ چیدہ پوائنٹس بیان کئے ہیں اَب جن کی روشنی میں پڑھنے والوں کو یمن اور سعودی عرب کے درمیان کشیدہ ہوتی صورتِ حال کو سمجھنے میں جہاں آسانی ہوگی تو وہیں عالمی سطح پر بدلنے والا سارامنظرنامہ بھی سمجھ آجائے گا۔

Azam Azim Azam

Azam Azim Azam

تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم
azamazimazam@gmail.com