counter easy hit

یمن کے حوثی اور ایران

Yemen Houthi

Yemen Houthi

پروفیسر : ڈاکٹر شبیر احمد خورشید
جمہوریہ یمن کا شمار دنیا کے پسماندہ ممالک میں کیا جاتا ہے۔خطہ عرب میں یمن کاعلاقہ قدیم دور کی سلطنتو ں میں شمار کیا جاتا رہا ہے۔موجودہ یمن کا رقبہ پانچ لاکھ ستائیس ہزار نو سو ستر مربعہ کلو میٹر ہے ۔جس کی موجودہ آبادی 2008،کے ایک سروے کے مطابق دو کروڑ بائیس لاکھ افراد پر مشتمل ہے۔جہاں کی 60%،آبادی سنی ہے جو شافعی مسلک سے تعلق رکھتی ہے، اور قریب قریب 40%،آبادی زیدی شیعہ ہے۔ جمہوریہ یمن کے سابق صدر جو حوثی شیعہ تھے مسلسل 30 ،سال (1978-2008) یمن کے صدر رہے۔یمن کی قومی اسمبلی جس کے ارکان کی تعداد 301، کو لور شورا کہا جاتا ہے،اورسینٹ جس کے ارکان کی تعداد 111،ہے کو اپر شوراکہا جاتا ہے۔یمن کی سر حد سعودی عرب کے ساتھ تقریباََ 1800 کلو میٹر سے زیادہ طویل ہے۔یمن کی سرحد کا ا یک بہت بڑا حصہ سعودی عرب کے ساتھ ملا ہونے کی وجہ سے کہ سعودی حکومت یمن کی تبدیلی میں اپنے لئے شدید خطرات محسوس کرتی ہے۔جنوبی یمن کا علاقہ زر عئی ہے ۔جہا ں خاصی مقدار میں کافی پیدا کی جاتی ہے یمن کا جنوبی علاقہ نسبتاََ پسماندہ ہے ۔جہاں یمن کے تیل کے ذخائر ہیں۔مگر یمن کوئی بڑا تیل پیدا کرنے والا ملک نہیں ہے۔اسکے باوجوڈ یمن کا 70%زرِ مبادلہ تیل ہی سے حاصل کرتا ہے ۔اس کی معیشت کا زیادہ تر انحصاربیرونی امدا پر ہے۔اسی علاقے میں حوثی قبیلے کی آبادی کا بڑ حصہ بھی رہتا ہے جس کی وجہ یمن کی موجودہ صورت حال نے سعودیوں کو زیادہ مشکلا ت شکار کر رکھا ہے۔

حوثیوں کا پہلا رہنما حسن بدرالدین حوثی تھا۔ جس نے 2004،میں ایک شیعہ تنظیم ”انجمنِ نوجوانانِ مومنین“ قائم کی تھی۔جو یمنی فورسز کے ہاتھوں 2004 ،میں ماراگیا تھا۔اسکے بعد اس شیعہ جماعت کا سربراہ عبدالمالک بنا۔جو آج یمن کا باغی رہنما بن چکا ہے۔جس کی وجہ سے یمنی فوج بھی دو دھڑوں میں بٹ چکی ہے۔ایک صدر ہادی کا حامی ہے تو دوسرا حوثیوں کے سابق صدر عبداللہ صالح کا حامی ہے۔ جس نے یمن میں ایک آفت پھیلائی ہوئی ہے۔یمنی حکومت کا دعویٰ ہے کہ ان حوثی باغیوں کی پشت پر ایران ہے۔جو عرب دنیا کے لئے ایک الارمنگ بات ہے۔یمن میںسول نافرمانی کی یہ تحریک 2004، سے جاری ہے۔ لگتا یہ ہی ہے کہ اس خطے میں ایران اپنے اثرات کو تیزی سے بڑھانے کی کوششوں میں دن رات مصروف ہے۔اسلامی انقلاب کے برپا ہوجانے کے اور خمینی کے انتقال کے بعد ایران نے بڑی تیزی کے ساتھ مشرقِ وسطیٰ میں حکومتیں گرا کر تبدیلی لانے کا خواب دیکھا ۔حالانکہ ان تیل پیدا کرنے والی عرب ریاستوں میں شیعہ اقلیت میں تھے۔دوسری جانب خلیج کی مشرقِ وسطیٰ کی یہ ریاستیں عسکری نقطہءنظر سے ہمیشہ سے ہی نہایت کمزور رہی ہیں ۔ان کی انہی کمزوریوں کی وجہ سے خطے میں بڑھتے ہوئے ایرانی اثرات نے ان ریاستوں کو کچھ زیادہ ہی پریشان کر کے رکھ دیا ہے۔

مشرقِ وسطیٰ میں 2003 ،سے تبدیلیوں کا آغاز کیا جاچکا ہے ۔صدام حسین سنی ہونے کے باوجود اپنے سیکولر مزاج کی وجہ سے عراق کے شیعوں میں بھی اتنے ہی مقبول تھے جتنے کے سُنیوں میں تھے۔امریکہ نے بڑے سلیقے سے جھوٹ کا سہارا لے کر صدا حسین کو اسکرین آﺅٹ کر کے ایران کے لئے راستے ہموار کر کے نور المالکی کی شیعہ حکومت جو مکمل طور پر ایران کے زیرِ اثر ہے،قائم کرا دی۔ اس کے بعد عرب بہار کے نام سے ایک نئی لہر پیدا کی گئی جس نے مصر و لبیا کی مضبوط حکومتوں کو تہہ و بلا کر کے پیش قدمی جاری رکھی ہوئی ہے۔ جب شا م کی جانب اس کا رخ ہوا تو اس اقلیتی حکومت کی پشت پر بھی ایران کو ہی حزب اللہ کے حسن نصر اللہ کی شکل میں دنیا دیکھ رہی ے۔

یمن کی سول نافرمانی جو حوثی قبیلے کی جانب سے بغاوت کی ایک شکل ہے کو یمن کے سابق شیعہ صدر علی عبدالمالک اپنے صدارتی دور میں نسل پرست انتہا پسندتحریک کہا کرتے تھے۔مگر آج اس بغاوت کو ان کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ یمن کے قبیلے کو کا زیادہ تر اثر شمالی یمن کے علاقے سعدہ میں ہے۔جو سعودی عرب کی سرحد کے ساتھ ہے۔ یہ حوثی زیدی سخت قسم کے بنیاد پرست ہیں۔ 2004 ،سے انہوں یمن کی مرکزی حکومت کے خلاف علم ِبغاوت بلند کیا ہوا ہے۔ حوثی دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ یمن میں(شیعہ) امامت قائم کرکے ر ہیں گے۔یہ لوگ یمن میں شیعہ خلافت کے قیام کا خواب پائیہ تکمیل کو پہنچا کر یہاں پرشیعہ خلافت قائم کرنا چاہتے ہیں۔ اس معاملے میں انہیں ایران کی در پردہ مکمل مدد و حمایت حاصل دکھائی دیتی ہے۔اس حولے سے ایکخبر جنوری 2013،میں سمنے آئی تھی جس کے تحت یمن میں مقیم امریکیمیرین نے ایک بحری جہاز کو روک کر اس کی تلاشیلیتومبینہ طور پر اس جہاز ایران کا بنایا گیا بھاری اسلحہبرآمد ہوا تھا۔مگر ایان نے اس کی شدت کے ساتھ تردید کی تھے کہ یہ اسلحہ ایران کی جانب سے بھیجا گیا ہے۔ یمن کی صورتِحال کی پیچیدگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ یہاں پر ایک جانب ایرانی حمایت یافتہ حوثی ملیشیاقبائل نے شورش اُٹھائی ہوئی ہے تو دوسری جانب امریکہ کے ہی کرتوتوں سے پیدا ہونے والی القائدہ ہے۔ تو تیسری جانب اسرائیل کی پیدا کردہ اور دولت اسلامیہ ہے ۔فی الوقت سعودی عرب کی سا لمیت اوراقتدار اعلیٰ کو ان تینوں ہی خطر نا ک گروہوں سے شدید خطرات لا حق ہیں ۔جس کی وجہ سے سعودیوں کی بے کلی بے جا نہیں ہے۔

آج عالمی افق پر ایک نیا جنگی محاذ کھول کریمن کے باغیوں نے عدن شہر کے ایک اہم فوجی ہوئی اڈے پر قبضہ کر کے بہت سی سرکاری عمارتوں پر حملے کر کے انہیں تباہ کر دیا ہے۔ یمن کے صدر منصورکی ہادی کی درخواست پر خلیجی ملکو کی حکومتوں نے یمن کی حکومت پر قبضہ کرنے کی کوشش کرنے والے حوثی قبائل کے خلاف با قاعدہ جنگ کا آغاز کر دیا ہے۔سعودی عرب اپنی سا لمیت کے پیشِ نظر اس جنگ میں حوثی قبائل کے خلاف اپنی بھر پور قوت استعمال کر رہا ہےدوسری جانب سعودی عرب کے شاہ سلمان بن عبدلزیز نے پاکستان سے بھی مدد کی در خواست کی ہے۔حکومت پاکستان کا کہنا ہے کہ پاکستا سعودی عرب کی سا لمیت کا بھر پور دفاع کرے گا۔کیونکہ سعودی عرب پاکستان کا ایسابھائی جس نے ہر اچھے برے وقت میں ہماری ساری دینا سے بڑھ کر مدد کی ہے۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہمارے تعلقات کی ایک اور اہم ترین وجہ حرمین الشریفین کی اس ملک میں موجودگی ہے۔ ہمیں شاہ سلمان بن عبدالعزیز کا ہندوستان کے دورے کے دوران کہا گیا وہ جملہ فراموش نہیں کرنا چاہئے جس میں ریاض سے روانگی سے قبل اور دہلی پہنچکر بھی انہون نے واضح الفاظ میں کہا تھا کہ ”پاکستان ہمارا بھائی ہے۔دوست بدل سکتے ہیں مگر بھائی نہیں“ جس وقت ساری دنیا اور خاص طور پر یورپ و امریکہ نے 28،مئی1998،کے پاکستان کے ایٹمی دھماکوں پر ہم پرسزا کے طور پر اقتصادی پابندیاں عائد کیں تو سعودی عرب نے مغرب کی ناراضگی کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے پاکستان کو مفت تیل کی ترسیل جاری رکھی اور اس کی بھر پور اقتصادی امداد جا رکھی۔جس کو ہم کبھی بھی فراموش نہیں کر سکتے ہیں۔

حوثی باغیوں کے خلاف تعاون کا فیصلہ کرنے کے ساتھ پاکستان ہر حال میں سعودی عرب کا دفاع کرے گا۔ہم ایسے بھائی کو آڑے وقتوں میں کیسے تنہا چھوڑ سکتے ہیں۔دوسری جانب ایران بھی ہمارا بہترین دوست رہا ہے ہمیں اس سے بھی اپنے تعلقات میں دراڑیں نہیں پڑنے دینا چاہئےں۔کوشش یہ کی جانی چاہئے کہ دو بھائیوں کی ناراضگی میں ان کے درمیان بھی صلح و دوستی کے لئے ہمارا مثبت کردار بھی ہونا چاہئے۔آض ایک مرتبہ پھر ہمیں کسی مخلص مسلمان رہنما کی شدید ضرورت ہے۔دوسری جانب ایران کو امریکہ اور مغرب کی چالوں کو فراموش نہیں کرنا چاہئے۔

Shabbir Khurshid

Shabbir Khurshid

پروفیسر : ڈاکٹر شبیر احمد خورشید
shabbir4khurshid@gmail.com