counter easy hit

کردوں میں مایوسی کی لہر

ادھرکافی عرصے سے میں زیادہ تر خارجہ امور پر ہی تحریرکررہا ہوں، جس میں مشرق وسطیٰ پر خصوصی طور پر تحریریں جاری رہی ہیں، جن میں معرکہ حلب اور داعش پر گفتگو جاری رہی ۔ان کے مابین کردوں کی جدو جہد آزادی ایک طویل جدوجہد کا تذکرہ رہا۔

1960 سے قبل عراقی قوم ایک ہی دھارے میں تھی مگر صدرصدام کی آمد کے بعد قومی جدوجہد کے راستے کو اپنا لیا۔ کردوں کا محل وقوع کچھ ایسے جغرافیائی محل وقوع پر ہے جو کئی ملکوں کی گزرگاہیں سمجھیے یعنی ترکی، شام، عراق کی گزرگاہیں، کیونکہ ہزارہا سال پر محیط علاقہ کبھی بھی تاریخی طور پر آزاد ملک نہ تھا۔ 1970 میں کراچی یونیورسٹی کے ایک کرد طالب علم مصطفیٰ نے چند کرد طالب علموں پر مشتمل ایک گروپ بنایا تھا، بعد ازاں جب وہ فارغ التحصیل ہوکر عراق گئے تو یہ گروپ ایک تنظیمی شکل اختیار کر گیا اور رفتہ رفتہ حالات بدلتے گئے اور پھرکئی تنظیمیں وجود میں آگئیں، ان میں جو تنظیم موجودہ دور میں خاصی مقبول ہوئی وہ تنظیم پیش مرگہ ہے ، جس کی عورتوں کے ونگ نے  بھی داعش سے مقابلہ کیا اور اس کو مشرقی شامی علاقے سے پسپا کیا،کیونکہ انھوں نے داعش کو سخت جنگ کے بعد پسپا کیا تھا تو انھوں نے سوچا کہ ہمارا مقابلہ چونکہ عراقی فوج سے ہے جو داعش کے حملے میں پسپا ہوتی گئی تو مقابلہ آسان ہوگا۔ لہٰذا بقول الجزیرہ کے رپورٹر، ان کے کمانڈر ابراہیم مرزا نے مناسب تیاری نہ کی تھی اور چند گھنٹوں میں ہی پسپا ہوگئے۔

ابھی مشکل سے ایک ماہ ہوا ہوگا کہ کردستان میں ریفرنڈم ہوا تھا جس میں عراق سے آزادی کے لیے ووٹ ڈالے گئے تھے۔ اس موقعے پر ترکی کے صدر نے ایک زبردست بیان اس کے خلاف دیا تھا اور بقول رشین ٹی وی صدر اردوان نے کہا کہ تم میں سے بعض نے جو اسرائیلی جھنڈے اٹھا رکھے ہیں یہ بھی تم کو بھوک سے نہیں بچا سکیں گے۔ کیونکہ صدر اردوان کردوں کی قومی آزادی کے خلاف ہیں، مگر گوکہ عراق نے اپنے معاشی ہب پر قبضہ توکرلیا مگر عراق کا رویہ کردوں کے خلاف اب اتنا سخت نہیں جتنی توقع تھی، کیونکہ بقول ایک بیرونی ٹی وی جمعہ 20 اکتوبر کو حملے سے قبل عراق کے گرینڈ آیت اللہ سیستانی نے خطبہ میں کہا تھا کہ کرکوک پر حملہ کرنے میں بڑی احتیاط برتنی ہوگی۔

جانی اور مالی نقصان کا بے حد خیال اور کردوں کے اندرونی علاقے میں داخل ہونے سے گریز کرنا ہوگا۔ مگر عراقی وزیراعظم آیت اللہ سیستانی کے جملے دہراتے رہے لیکن کردوں کے ترجمان نے بتایا ہے کہ عراقی فوج کرکوک سے آگے بڑھی ہے اس لیے اب پیش مرگہ کے کمانڈر کو مزید کمک منگوانی پڑے گی۔ اس موقعے پر روسی ٹی وی آر کا صرف ایک جملہ سامنے آیا ہے کہ اب پیش مرگہ کی پسپائی پر امریکی انتظامیہ کا کیا ردعمل ہوگا۔ کیونکہ امریکا نے داعش کی پسپائی کے بعد ترقی کے احتجاج کے باوجود کردوں کو اسلحے کی سپلائی جاری رکھی ہے اور ایک زیادہ اہم بات کہ جمہوریہ کردستان کو ایک اعتبار سے تسلیم کرلیا ہے۔

کیونکہ اسرائیل نے جمہوریہ کردستان کو تسلیم کرلیا ہے اور اس نے اس کے دارالسلطنت اربیل میں اپنا سفارت خانہ باقاعدہ طور پر کھول دیا ہے۔ یہ ایک ایسی قسم ہے جس نے ترکی کو خاصا ناراض کیا ہے، مگر یہ امریکا کے منصب کے خلاف ہے کیونکہ وہ قومی آزادی کی تحریکوں کی اس انداز میں مدد نہیں کرتا تھا، ایسا عمل تو سوویت یونین کے پہلے صدر جوزف اسٹالن کیا کرتے تھے۔

دوم یہ کہ کرد ملیشیا گو کئی پارٹیوں کا جمہوری اتحاد ہے مگر یہ بنیادی طور پر جنگی حکمت عملی سے آزادی حاصل کرنے پر یقین رکھتی ہے اور سوشلزم کو اپنی منزل قرار دیتی ہے ۔ لہٰذا کردوں نے یہ غلط گیند کھیلی ہے یا ٹرمپ نے بغیر کسی تجزیہ کے اسرائیلی تھنک ٹینک کے مشورے سے یہ قدم اٹھایا ہے۔کیونکہ امریکی سیاست اسرائیلی حکمت عملی پر انحصارکرتی ہے۔ یہ تقریباً ایسا ہی قدم ہے جیساکہ افغان امن کے حل میں کسی نہ کسی طرح نریندر مودی جیسے مذہبی اور نسلی تعصب رکھنے والے فرد کی موجودگی۔ بہرحال بات شرق اوسط کی ہے تو اسی دائرے میں گفتگو بہت ہوگی۔

امریکا کا یہ کھیل درحقیقت اسرائیل کے لیے تو سودمند ہوگا، مگر خود امریکا کے لیے نقصان کا باعث ہے۔ خصوصاً ترکی، اردن اور عراق کے لحاظ سے اس موقعے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے عراقی وزیر خارجہ ابراہیم جعفری نے ماسکو کا دورہ کرتے ہوئے روس سے جغرافیائی حدود کی سلامتی کا ایک معاہدہ کرلیا ہے تاکہ ملکی سلامتی کو مستحکم بنایا جائے۔ مگر انھوں نے آیت اللہ سیستانی کے بیان کو پوری طرح ملحوظ خاطر نہ رکھا جو انھوں نے کردوں کے علاقے پر حملے کے سلسلے میں کربلائے معلیٰ کی ایک مسجد میں بطور خطبہ عراقی فوجوں سے کہا تھا کہ کردوں کا جانی اور مالی نقصان نہ ہو اور ان کے علاقوں پر جو رہائشی مراکز ہیں حملہ نہ کیا جائے۔ مگر ایک عرب چینل الجزیرہ پر پیش مرگہ کے ایک کمانڈر نے بتایا ہے کہ اس لڑائی میں تقریباً ایک لاکھ بے گھر ہوئے اور سیکڑوں زخمی ہوئے جب کہ کرکوک کو پیش مرگہ نے داعش سے لیا تھا۔

انھوں نے مزید بتایا کہ لڑائی کا فیصلہ چند گھنٹوں میں اس لیے ہوگیا کہ ان کی اتحادی جماعتوں میں اتحاد کی کمی تھی اور ایک گروپ نے جنگ کے ایک حصے کو خالی چھوڑ دیا اور چلے گئے۔ ظاہر ہے کہ تمام امور پر ان کے اتحادیوں کو مکمل اتفاق نہ تھا اور یہ نااتفاقی ہنوز جاری ہے۔ اب یہ فرض مسٹر برزانی کا ہے کہ وہ اپنے اتحادی منشور میں جمہوری تبدیلیاں کریں جو ہر پارٹی کے لیے قابل قبول ہوں۔ کیونکہ داعش کو تو مرد و زن نے زبردست جنگ کرکے نکال دیا۔ مگر اب اپنے گھر کی سلامتی کے لیے ہم اور کھلے دل سے قدم اٹھانے کی ضرورت ہے جس پر لوگ کھلے دل سے اعتبار کرسکیں۔ ورنہ عراقی وزیراعظم مسٹر عابدی کا یہ بیان حقیقت بن کے جگمگائے گا کہ کردستان ماضی کی ایک حسرت ہے۔

خیر کسی بھی قوم کے متعلق یہ کہنا درست نہیں کہ آزادی ان کی حسرت ہے، یہ کرد جن کے متعلق مختلف افسانوی کہانیاں مشہور ہیں کہ یہ عام آدمیوں سے مختلف نسل ہے، ان کے کان اور آنکھیں عام لوگوں سے مختلف اور خوبصورت ہیں۔ بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ چند لوگ جو پہاڑی علاقوں میں بلندی پر رہتے تھے ان کو اللہ نے طوفان نوح میں غرق ہونے نہ دیا، جو آج پسماندہ زندگی گزار رہے ہیں، لیکن یہ اب بڑی آبادی ہیں جو ہماری سر زمین پہ رہتے ہیں اور عام لوگوں سے علم و فن میں تشنہ رہ گئے ہیں، لہٰذا اب یہ بیدار ہوئے ہیں۔ ابھی رہبروں کو نہیں پہچانتے۔ مگر انسانی حقوق تو ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔

25 ستمبر 2017 کو جو ریفرنڈم کرایا گیا اس کا ٹرن آؤٹ 80 فیصد سے زائد رہا، مگر یہ بکھری ہوئی قوم ہے جو ایران عراق اور ترکی سے آذر بائیجان تک پھیلی ہوئی ہے کیونکہ یہ لوگ بکھرے ہوئے ہیں ان کا کوئی مرکز نہیں ہے لہٰذا دنیا کو ان لاکھوں یا کروڑوں لوگوں کی تعداد معلوم نہیں۔ ان کو یہ جدید دنیا اپنی روٹی سے ایک ٹکڑا کھانے کے لیے دینا نہیں چاہتی، اس سلسلے میں ترکی صف اول میں نمایاں ہے۔ دوسری جنگ عظیم سے لے کر آج تک دنیا ان کو مغلوب ہی کرتی رہی۔

آخر کار جب انھوں نے حقوق کے لیے آواز بلند کی تو دنیا میں موافقت اور مخالفت میں آواز تو اٹھی عراقی وزیر اعظم نے مسعود برزانی کو جس طرح نظرانداز کیا انھیں ان کی جدوجہد کا کوئی ثمر تو دینا چاہیے۔ یہ داعش کے خلاف ہتھیار بند مرد و زن سینہ سپر ہوئے۔ کرکوک کے تیل کی آمدنی کا کوئی حصہ تو بطور علاقائی ترقی کی مد میں ملنا چاہیے۔ یہ عجب اتفاق ہے کہ گوکہ کرد خود مسلمان ہیں اور چاروں طرف سے مسلمانوں میں گھرے ہیں مگر ان کے موقف کو کوئی سمجھنے پر تیار نہیں۔

اگر کسی نے بظاہر سمجھا تو وہ اسرائیل، یہ بھی منافقت کا عمل جو ایک نئے بحران کا پیش خیمہ ہے لہٰذا اصولاً عراق اور شام کو اس اسرائیلی حکمت عملی کو رد کرنا ہوگا اور کردستان کے عوام میں مایوسی اور بے چینی کی لہر کو امید کی کرن پیدا کرنی ہوگی اور مسعود برزانی جو جمہوریہ کردستان کے صدر ہیں ان میں امید کی کرن پیدا کرنی ہوگی۔ اور دارالسلطنت اربیل جانے کی تیاری یا ان کے دورے کی تاریخ طے کرنی ہوگی تاکہ مایوس قوم کو فلاح کی راہ تو نظر آئے۔