counter easy hit

نامور پاکستانی صحافی کی تشویشناک پیشگوئی

Worried predecessor of famous Pakistani journalist

لاہور (ویب ڈیسک) جس طرح انسان کا مزاج اس کا مقدر ہوتا ہے اس طرح قوموں کا عروج و زوال بھی ان کی عادات اور اطوار میں پنہاں ہوتا ہے۔ رومن ایمپائر سے خلافت عثمایہ تک اور مغلوں سے سلاطین دہلی تک ان کے عروج کے زمانوں میں حکمران اور عوام کیسے Behave کرتے تھے نامور کالم نگار ناصر خان اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔اور عروج کے آخرش وہ کیا کررہے تھے۔ ہم گوروں کے ساتھ بہت عرصہ رہے۔ انہوں نے کہا کہ جمہوریت بہترین طرزِ حکومت ہے۔ ہم نے بھی کہا ایسا ہی ہے۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے کہ ایک جاہل، اجڈ اور گنوار کو تھری پیس سوٹ پہنا کر سمجھا جائے کہ اب وہ مہذب ہوگیا ہے۔ ہر معاشرے کے فرد اور افراد کا اپنا انداز فکر ہوتا ہے۔ کلچر بھی اور الگ ڈی این اے بھی۔ ہمارے ہاں کرپشن کو جمہوریت کا لباس پہنادیا گیا ہے۔ پستی کی انتہا ہے کہ کسی سیاستدان کو کہو کہ تم نے کیا یہ کرپشن کی ہے؟ تو وہ جواب میں یہ بتانے کی بجائے کہ اس کے ہاتھ صاف ہیں کہتا ہے جمہوریت خطرے میں پڑ گئی ہے۔ کیا کرنا ہے ایسی جمہوریت کا جو ہمیشہ حکمران طبقات کو امیر سے امیر تر اور محکوم طبقات کو غریب سے غریب تک بناتی چلی جائے۔ پڑھی لکھی بات ہے دنیا کے کسی بھی ملک میں … جمہوریت ہو کہ کچھ اور فیصلہ اکیلے لیڈر نہیں کرتا۔ اس کے مشاورتی حلقے ہوتے ہیں۔ اداروں کی ان پٹ ہوتی ہے اور اسٹیبلشمنٹ بھی۔ پاکستان ایک سافٹ سٹیٹ ہے۔ سیاسی لیڈر کرپٹ بھی ہیں اور ڈھیٹ بھی۔ سیاسی جماعتیں نہیں لمیٹیڈ کمپنیاں ہیں جو بغاوت کرے اسے فارغ کردیا جاتا ہے۔ مریم بولے تو خواجہ آصف اور خاقان عباسی جیسے سنتے ہیں۔ بلاول بولے تو اعتزاز اور کائرہ جیسے سر ہلا ہلا کر داد دیتے ہیں۔ ایک جانب ہونے کے لیے نواز، مریم اور حمزہ کا قوال ہونا چاہیے۔ دوسری جانب ہونے کے لیے بلاول کے پیچھے تالی بجانے والا۔ سوال ہے کس سے؟ خوانچے والے سے پڑھے لکھے دانشور تک سبھی کو علم ہے کہ نواز شریف جیسے طاقتور ستون کو گرانا اکیلے عمران کے بس کا روگ نہیں تھا۔ شریف سیاسی آکٹوپس تھے بلکہ ہیں۔ ان جیسوں کو سسٹم سے نکالنے کے لیے ’’گارڈین آف سسٹم‘‘ کو چومکھی لڑائی لڑنا پڑی۔ سیاست کے فرنٹ پر … میڈیا کے محاذ پر … اور دیگر مورچوں پر بھی۔ آپ تصور کریں اس نواز شریف کا جو وزیر اعظم تھا۔ اس شہباز… حمزہ اور مریم کا۔ نواز شریف خود کو پاکستان کا نیلسن منڈیلا سمجھتے تھے۔ شہباز گڈ گورننس کے بے تاج بادشاہ تھے، میٹرو اور اورنج اور بے شمار کمپنیوں سمیت۔ مریم خود کو اینٹی اسٹیبلشمنٹ بے نظیر سمجھتی تھیں مگر کوئی قربانی دیئے بغیر۔ حمزہ کا تکبر دیکھ کراکثر لوگ حیرت سے انگلیاں چبانے لگتے تھے۔ میاں نواز شریف تو وزیر اعظم تھے مگر فواد حسن فواد اور احد چیمہ بھی خود کو بنو عباس کے یحییٰ برمکی اور جعفر برمکی تصور کرتے تھے۔ علی عمران داماد شریف اور سلمان شہباز سونے پر سہاگہ تھے۔ بے نظیر کے بعد آصف زرداری نے کرپشن کو سٹیٹ آف آرٹ بنادیا۔ مگر سندھ اور پنجاب کے حکمرانوں میں ایک فرق رہا۔ بلاول، آصفہ اور بختاور … کرپٹ نہیں ہیں۔ ان کے بابا اور پھوپھی … بمعہ سراج درانی اور شرجیل میمن اینڈ کمپنی مصدقہ کرپٹ ہیں۔ مگر آل شریف پاکستان کو ذاتی سٹیٹ سمجھتی ہے اور جاتی عمرا اور ذاتی کاروبار پر سرکاری وسائل خرچ کرنا عین ثواب جانتی ہے۔ شریفین 81ء میں آتے ہیں … پھر حالیہ پانامہ تک انہیں کسی نے نہیں روکا، کسی نے نہیں پوچھا۔ مشرف چاہ کر بھی ان کا کچھ نہ بگاڑ سکا۔ ان کے عہد نے سارے کا سارا پاکستان ہی بگاڑ دیا۔ پولیس سے بیوروکریسی تک، سیاست سے تجارت تک۔ ان کے عزیزوں سے دوستوں تک ماورائے قانون تجارت و امارت کے ایسے ایسے قصے ہیں کہ مکار چانکیہ بھی پناہ مانگتا ہو گا۔ ان ہی حکمرانوں کو فالو کرتے کرتے آج چھابڑی والے سے ٹاپ بزنس میں تک راتوں رات امیر بننا چاہتا ہے۔ شارٹ کٹ لگانا چاہتا ہے۔ نماز پڑھتا ہے مگر کم تولتا ہے۔ ٹیکس نہیں دیتا۔ پریشر گروپ بنا کر قانون کا جالا توڑ دیتا ہے۔ وکلائ، عدالتوں اور قانون کی بات پھر سہی۔ ان سے سوال کرو تو ایسی ایسی دلیل اور تاویل ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ پنجابی کا ایک مکالمہ یاد آجاتا ہے ’’میں وی سچا واں تے توں وی سچا ایں۔ تیرا سچ ہور اے تے میرا سچ ہور اے‘‘۔ یہ گلا سڑا نظام، بدنیت DNA والا کھوکھلا معاشرہ، یہ جعلی جمہوریت … عمران خان نیک نیتی سے اس بہائو کے خلاف تیرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مگر کیا اس کے پاس ٹیم ہے؟ اس کی سمت درست ہے؟ کیا ان کے پاس ایسی حکمت اور وژن ہے جو ان مگرمچھوں کے خلاف جنگ لڑ سکے؟ مرکز، پنجاب اور پشاور کی ٹیم دیکھ کر ڈپریشن ہوجاتا ہے۔ کیا یہ بدلیں گے پاکستان کو؟ ایک طرف عوام کا خون چوسا جارہا ہے بنام جمہوریت … دوسری جانب جو حکومت کر رہے ہیں بقول پروین شاکر ؎ راستوں کا ہم کو پتہ تھا نہ سمتوں کی خبر شہر نامعلوم کی چاہت مگر کرتے رہے مگر خان صاحب کی چاہت کو شہر معلوم زیادہ مہلت دینے کے موڈ میں نہیں۔ عمران خان کی چاہت کو بہت سے اگر اور مگر نے جکڑ رکھا ہے۔ وہ مردم شناس بھی نہیں اور اس کی ٹائمنگ بھی خراب ہے۔ ایسے میں اگر وہ ناکام ہوجاتے ہیں تو پاکستان کی گورننس کا اگلا پڑائوکون سا ہوگا؟ … آئیے اگلے منظر نامے کا انتظار کریں!!!

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website