
لیکن آج خلاف معمول مجھ پر گھبراہٹ طاری ہے کیونکہ کراچی سے ملحق زیر سمندر علاقے کیکڑا ون سے تیل اور گیس کے بہت بڑے ذخائر برآمد ہونے کی امیدوں پر پانی پھر گیا ہے۔ گھبراہٹ کی وجہ یہ نہیں کہ خدانخواستہ میں نااُمید ہوگیا ہوں۔ اگرچہ یہاں گزشتہ 60 سال کے دوران کم از کم 17مرتبہ تیل نکالنے کی کوشش کی جا چکی ہے لیکن مجھے یقین ہے کہ ایڑیاں رگڑنے دی جائیں تو تیل یہیں سے نکلے گا۔ اِس بار تیل اور گیس کے ذخائر برآمد نہ ہونے کا امکان تھا ہی نہیں کیونکہ کپتان کے سیدھے ہاتھ کی ہتھیلی پر خارش ہوئی، جس کے بعد اُنہوں نے کیکڑا ون سے تیل نکلنے کی خوشخبری دی۔ اتنی سی بات تو آپ سب جانتے ہی ہوں گے کہ دائیں ہاتھ پر کھجلی ہو تو اِس کا مطلب ہوتا ہے کہ آپ کے پاس دولت کی ریل پیل ہونے والی ہے۔ مجھے گھبراہٹ اِس سنگین نوعیت کی سازش پر ہو رہی ہے جو کپتان سے ذاتی عناد رکھنے والوں نے دشمنوں سے مل کر رچائی ہے۔ نفرت کے مارے اُن لوگوں نے یہ بھی نہیں سوچا کہ کپتان کو کیا فرق پڑے گا، تیل نکل آئے گا تو ملک کی تقدیر بدل جائے گی۔ بہر حال میں نے اس سازش کی چند کڑیاں ملاکر ملک دشمنوں کو بے نقاب کرنے کی کوشش کی ہے۔ جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ زیر سمندر ڈرلنگ کے منصوبے میں چار کمپنیاں شراکت دار تھیں۔ اِس جوائنٹ وینچر میں او جی ڈی سی ایل، پاکستان پیٹرولیم، ایک اطالوی اور ایک امریکی کمپنی شامل تھی۔ جب تک معاملات اطالوی کمپنی کے ہاتھ میں تھے تو کسی قسم کی سازش کی توقع نہیں تھی لیکن جونہی امریکی کمپنی کو اس منصوبے کا حصہ بنایا گیا میرا ماتھا ٹھنکا۔ امریکہ نے برسہا برس سعودی عرب کی ترقی و خوشحالی کا راستہ روکے رکھا کیونکہ تیل کے ذخائر برآمد ہونے کے باوجود امریکی آئل کمپنیاں یہی بتاتی رہیں کہ تیل کے ذخائر ناکافی ہیں جب سعودی عرب نے گھٹنے ٹیک دیئے اور تیل نکالنے کے لئے امریکہ کی تمام شرائط مان لی گئیں تو تب جا کر اصل رپورٹیں سعودی حکام کو دکھائی گئیں۔ پاکستان کے خلاف بھی اِسی قسم کی سازش ہورہی ہے۔ آپ خود ہی بتائیں موجودہ دور میں جب سائنس و ٹیکنالوجی اس قدر ترقی کرچکی ہے کہ کھدائی کئے بغیر ہی سروے کر کے بتایا جا سکتا ہے کہ کس جگہ کونسا خزانہ پوشیدہ ہے تو یہ غیر ملکی کمپنیاں کیا بے وقوف تھیں جو اتنا عرصہ یہاں وقت اور وسائل ضائع کرتی رہیں؟ بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے ہاں ڈرلنگ کے دوران حاصل ہونے والے نمونوں کے تجزیئے کے لئے کوئی لیبارٹری نہیں ہے، اِس لئے حاصل کیا گیا سیمپل بیرون ملک لیبارٹریوں میں ہی بھجوانا پڑتا ہے جہاں عالمی سازش کے تحت ردوبدل کرنا اور مرضی کی رپورٹ تیار کروانا ان عالمی طاقتوں کے لئے کوئی مسئلہ ہی نہیں۔
آپ کو یہ جان کر شدید حیرت ہوگی کہ کیکڑا ون سے تیل نہ نکلنے کی اس سازش میں نہ صرف بھارت کا ہاتھ ہے بلکہ اس سازش کے تانے بانے ان سیاستدانوں سے بھی ملتے ہیں جن کے بھارت میں کاروباری مفادات ہیں۔ امریکہ میں بھارتی لابی بہت مضبوط ہے، اتنی سی بات تو آپ کو معلوم ہی ہے لیکن کئی امریکی کمپنیوں کے سی ای اوز بھی بھارتی شہری ہیں۔ جب اس منصوبے پر کام کر رہے انجینئرز نے کپتان کو رپورٹ دی کہ وہ ڈرلنگ کے دوران تیل کے ذخائر تک پہنچ گئے ہیں تو کپتان نے یہ خوشخبری اپنی سینے میں چھپانے کے بجائے عوام کو بانٹنے کا فیصلہ کیا۔ جیسے ہی یہ خبر عام ہوئی، ملک دشمن پٹواریوں اور لفافہ صحافیوں کے پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگے اور یہیں سے پاکستان کے خلاف بین الاقوامی سازش کا آغاز ہوگیا۔ ہمارے مخالفین نےایک قاصد کو ہنگامی طور پر کراچی بھیجا گیا جو بھیس بدل کر صحافی کے روپ میں اس وفد کا حصہ بن گیا جو وفاقی وزیر علی زیدی، وزیرِ مملکت عمر ایوب اور وزیراعظم کے مشیر برائے پیٹرولیم ندیم بابر کی قیادت میں سائٹ وزٹ کرنے گیا۔ صرف یہی نہیں بلکہ باوثوق ذرائع کے مطابق کیکڑا ون سائٹ پر ڈرلنگ کے دوران کئی سو فٹ تک ریت اور بجری بھر دی گئی ہے تاکہ دوبارہ کوئی کمپنی تیل نکالنے کی کوشش کرے تو وہ ان ذخائر کی تہہ تک نہ پہنچ سکے۔
مجھے اس سازش کے باعث شدید گھبراہٹ ہو رہی ہے اور میری اپنے کپتان سے التجا ہے کہ نہ صرف اس گھنائونی ساز ش کے تمام کرداروں کو سامنے لایا جائے بلکہ آئی ایم ایف سے لئے گئے قرضوں سے ڈرل مشینیں خرید کر اپنی مدد آپ کے تحت ڈرلنگ کی جائے کیونکہ مجھے یقین ہے کہ انہی تِلوں میں تیل ہے اور ایڑیاں رگڑتے رہیں تو ایک نہ ایک دن تیل یہیں سے نکلے گا۔
نوٹ: یہ ایک انصافیے کی خودکلامی ہے جس پر اعتبار کرنے والے ممکنہ نتائج کے خود ذمہ دار ہونگے۔








