counter easy hit

کاش ہمیں چار اپریل کو ذوالفقار علی بھٹو کی شہادت کا دن دیکھنا نصیب نہ ہوتا: قیصر ملک

Qaiser Malik

Qaiser Malik

جرمنی (انجم بلوچستانی سے) پاکستان پیپلز پارٹی جرمنی کے مشہور کارکن و رہنماقیصر ملک نے ذوالفقار علی بھٹو شہید کی برسی کے موقعہ پر پاکستان کی تاریخ اور موجودہ حالات پر تبصرہ کیا ہے ،جو اپنا انٹرنیشنل نیوزکی وساطت سے پیش کیا جا رہا ہے: پاکستان کی تاریخ کا یہ دن ہر سال آتا ہے اور اپنے ساتھ پاکستان کے لئے کوئی نہ کوئی نئی پریشانی لا کھڑا کرتا ہے۔آج کل مرد مومن مرد حق کا نعرہ لگانے والے دیہاڑی دار اپنی پرانی نوکری چھوٹ جانے پر بہت پریشان ہیں۔

انہوں نے اپنی پوری طاقت ان دہشت گردوں کے پلڑے میں ڈال دی تھی اور انکو طالبان کا نام دیکراور اپنے بچے کہہ کر اپنی دکانداری چلارہے تھے،دہشت گردوں کو شہید اور اپنی افواج کے جوانوں کو شہید کہتے ہوئے بھی کتراتے تھے ،اورپھریہ بچے اتنے طاقتور ہو گئے کہ اپنے ہی بنانے والوں کے سامنے کھڑے ہوگئے۔ ویسے تو جنرل ضیاء نے اپنی اور اپنی منہ بولی اولاد کے لئے پیپلز پارٹی کے خلاف اس صدقہ جاریہ کی بنیاد رکھی تھی، کیونکہ یہ سب کچھ صرف بھٹو فیکٹر ختم کرنے کے لئے بنایا گیا تھا۔جب ١٩٧٨ء میںجنرل ضیاء نے بھٹو صاحب کو گرفتا ر کیا ،تو اسوقت ایک ماما تھا جس نے اپنی ڈنڈا بردار فورسز کوپولیس کی مدد کے ساتھ پورے پاکستان میں پاکستان پیپلز پارٹی کے کارکنوں پر چھوڑ دیا تھا۔پیپلز پارٹی کے کارکنوں کے خلاف ان ہی لوگوں کے کہنے پر مقدمے بنائے جاتے ،مامے بھانجے کی فورسز کا کوئی آدمی بھی جا کر کسی کے خلاف یہ کہہ دیتاکہ یہ شخص ذوالفقار علی بھٹو کے حق میں نعرے لگارہا تھا،تو اس کو نہ صرف گرفتا کرلیا جاتا ،بلکہ فورا ہی فوجی عدالت لگائی جاتی اور عدالت انہی لوگوں کی گواہی پر پاکستان پیپلز پارٹی کے اس کارکن کو،جس کے خلاف یہ الزام ہوتا کہ اس نے بھٹو کہ حق میں نعرہ لگایا ہے، دس کوڑے اورپانچ سال قید کی سزا عام طور پر سنا دی جاتی تھی ۔انہی دنوں کی بات ہے۔

جب یہ نعرہ عام ہواتھا (دس دس کوڑے ، پانچ پانچ سال۔۔۔۔۔۔بھٹو جئے ہزاروں سال) یہ سب کچھ جو کچھ پاکستان میں آجکل ہم دیکھ رہے ہیں ،یہ سب کچھ وہی ہے، جس کی بنیادمامے بانجھے (میاں طفیل اور ضیاء الحق )نے رکھی تھی۔ آج اگر ہمیںہر طرف دہشت گردی اور دہشت گرد نظر آتے ہیں ،تو اسمیں کوئی عجوبہ والی بات نہیں۔ان سب دہشت گردوں کو پہلے ہی پاکستان پیپلز پارٹی کے خلاف استعمال کیا جاتا رہا،انکے ذریعہ پاکستان پیپلز پارٹی کی پوری قیادت کو ختم کرایا گیا، ہزاروں کارکنوں کو شہید کیا گیا ،لاکھوں کو دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور کیا گیا،بھٹو خاندان کا ایک ایک فرد ختم کردیا گیااورآخر کار بھٹو شہید کی بیٹی محترمہ بے نظیر بھٹو،جو دومرتبہ عوام کے ووٹوں سے پاکستان کی وزیراعظم منتخب ہوئی تھی، کو بھی سڑک پر عوام کے درمیان شہید کردیا گیا۔

یہ سب کچھ کرانے والی حمید گل اینڈ کمپنی والے رات دن میڈیا میں یہ کہتے تھے کہ یہ طالبان سب اپنے بچے ہیں، ہم جب بھی چاہیںگے ان کو راہ راست پر لے آئیں گے ،مگر وہ دہشت گرد جن کے منہ کو خون لگ گیا تھا، انہوں اپنے بنانے والوں کے ہی گلے کاٹنے شروع کردئے۔ ہمارے ان کرتا دھرتائوں نے پیپلز پارٹی کو ختم کراتے کراتے مملکت پاکستان ہی کو دائوپر لگا دیاہے ۔اب آپ خود ہی دیکھ لیں کہ ہماری پوری فوجی طاقت ان دہشت گردوں کوختم کرنے کیلئے دن رات مصروف عمل ہے ،مگر آج بھی کوئی یہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں کہ یہ سب اس ٤اپریل کو کئے گئے جرم کاصلہ مل رہا ہے ،جس کو ہم نے صرف اپنی جھوٹی انا کی خاطر عدالت کے ذریعہ پاکستان کے غریب عوام پر مسلط کر دیاہے۔ ذوالفقا رعلی بھٹو عدالت کے سامنے کھڑا ہو کر کہتا رہا کہ جنرل ضیاء آگ میں ہاتھ ڈال رہا ہے ،مگران سب طاقتور لوگوں نے ذوالفقار علی بھٹو شہیدکے ناحق خون سے اپنے ہاتھ رنگے۔ابھی کچھ عرصہ پہلے تاریخ نے ایک مرتبہ پھراسی اعلیٰ عدالت کو موقعہ دیا کہ اپنے نام پر لگا ہوا دھبہ صاف کردو ،مگرایسانہیں ہوا۔ ایک بغض بھٹو ،بغض زرداری اور بغض پیپلز پارٹی میں ڈوبا ہوا جج جو عدلیہ کی بڑی کرسی پر فرعوں بن کر ہرایک کو نیچا دکھانے اور الیکٹرونک میڈیا میں شہرت کے چکر میں ہر جائز وناجائز فعل کئے جارہاتھا ۔ اسی بغض میں، اس جگے جج نے متفقہ طور پر منتخب پاکستان کے پہلے وزیراعظم یوسف گیلانی کو بھی نااہل قرار دے دیا، جو کوئی عدالتی فیصلہ کم اور بغض پیپلز پارٹی زیادہ نظر آتا تھا۔

اب بھی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے، یہ سب کچھ اسی ذوالفقار علی بھٹو کے قتل ناحق کا صلہ ہے، جسے طاقتور ہاتھ اب بھی قبول کرنے کو تیا رنہیں۔ اس ایک قتل کو چھپانے اور اسکو صحیح ثابت کرنے میں ہم نے اپنے ملک پاکستان کی کیا حالت بنالی ہے ۔ہم نے اپنے ہی تیار کردہ دہشت گردوں کے ذریعہ ہزاروں معصوم پاکستانیوں کو اسکی بھینٹ چڑھادیا۔ہم نے اپنی عبادت گاہوں کو ان دہشت گردوں کے ہاتھوں پامال کروا لیا۔ہم نے ان دہشت گردوں کے ہاتھوں پشاوراسکول میں اپنے نونہال بچوںکے لاشے تڑپتے دیکھے۔ہم نے پاکستان میں مسیح برداری کی عبادتگاہوں کی بے حرمتی بھی دیکھی۔ہم نے اولیاء کرام کے مزارات پر خود کش حملے بھی دیکھ لئے۔ ہم نے اپنی مارکیٹوں میں خون کی ہولی بھی دیکھ لی ۔ہم نے اپنی اعلیٰ فوج کے سینکڑوں جوانوںگلے ان سے کٹوالئے، مگر آج بھی ہم میں سے کوئی یہ کہنے کو تیار نہیں کہ ہم نے ذوالفقا رعلی بھٹو کو شہید کرکے ایک غلطی کی تھی ۔ہم اس ایک قتل کو جائز بنانے کے لئے اپنا سب کچھ برباد کر بیٹھے ہیں، مگر اپنی غلطی پرنادم ہونے کوتیار نہیں ہیں ۔ہم یہ ماننے کو تیار نہیں کہ اگر بھٹو کو قتل نہ کیا جاتا تو یہ سب کچھ شائد پاکستان کو دیکھنا نصیب نہ ہوتا۔یہ پیاراپاکستان ایک خوشحال ملک ہوتا ، ا س میں غریب عوام سراونچا کرکے زندگی بسر کرتے، یہاں پر کسان پاکستان کو خوشحال بنانے میں اپنا کردار ادا کررہا ہوتا ،ہمارامزدور اپنے خون پسینے کی محنت سے اس ملک کا نام روشن کر رہا ہوتا اور یہ ملک دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی کی منزلیں طے کر چکا ہوتا۔کاش ہمیں چار اپریل کو بھٹو شہید کی شہادت کا دن دیکھنا نصیب نہ ہوتاتوآج ہم بھی؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟۔