counter easy hit

ایران کے خلاف کسی فوجی کارروائی کا حصہ نہیں بنیں گے، قطر

سنگاپور: ایک سینئر قطری حکام نے کہا ہے کہ ان کا ملک ایران کے ساتھ کوئی تنازع میں نہیں پڑنا چاہے گا۔

Will not be part of any military action against Iran, Qatarقطر کے نائب وزیر اعظم اور وزیر دفاع خالد العطیہ نے سنگاپور میں بین الاقوامی سیکیورٹی کانفرنس میں خطاب کے دوران کسی کا نام لیے بغیر کہا کہ’ قطر کے ایران کے ساتھ بہت اختلافات ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم جائیں اور خطے میں جنگ کا آغاز کردیں‘۔ خیال رہے کہ قطر کی جانب سے کسی کا نام نہیں لیا گیا لیکن اس کا اشارہ ایران کے مخالف سعودی عرب کی طرف ہوسکتا ہے، جس نے گزشتہ برس جون سے قطر کے ساتھ اپنے تعلقات منقطع کر رکھے ہیں۔

خالد العطیہ کا کہنا تھا کہ ’ ایران اگلا دروازہ ہے، ہمیں جنگ کے بجائے خطے میں امن کے لیے اسے بلانا چاہیے اور تمام معاملات کو ایک میز پر رکھ کر بات کا آغاز کرنا چاہیے‘۔ کانفرنس کے دوران جب ان سے پوچھا گیا کہ آیا قطر کے فضائی اڈے ایران پر فضائی حملے لیے استعمال ہوں گے ؟ تو اس پر انہوں نے کہا کہ ہمارا ملک ’ جنگ کا پرستار ‘ نہیں ہے اور ہم تعلقات اور مذاکرات کی حمایت کرتے ہیں۔

قطری تنازع سے ابھرتا ہوا نیا خلیج

دوسری جانب ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ قطر اور اس کے پڑوسی ممالک کے درمیان ایک سال سے جاری تنازع ایک نئے ’ خلیج‘ کو بنا رہا ہے، جس کے باعث عرب دنیا کا مستحکم خطہ ممکنہ طور پر تبدیل ہوسکتا ہے۔ اس حوالے سے ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق انہوں نے اپنے پرانے اتحاد کو ختم کردیا ہے اور 6 ملکی خلیک تعاون کونسل عملی طور پر متروک ہوچکی ہے اور قطر ترکی اور ایران کی طرف دیکھ رہا ہے۔ اس تمام معاملے پر رائس یونیورسٹی کے بیکر انسٹیٹیوٹ میں ایک ساتھی کرسٹین الرچسن کا کہنا تھا کہ ’ عرب خلیج میں اس علاقئی یونٹس کے اثرات سے کشیدگی ختم ہوسکتی ہے لیکن یہ دیکھنا بہت مشکل ہے کہ کس طرح عرب خلیج دوبارہ ایک ساتھ ہوتے ہیں‘۔

واضح رہے کہ عرب مملک کے درمیان یہ تنازعات 5 جون 2017 کو ہوئے تھے جب سعودی عرب، متحدہ عرب امارات ( یو اے ای )، بحرین اور مصر نے ایران اور دہشت گردی کی حمایت کے الزام میں اچانک دوحہ سے تعلقات ختم کردیے تھے اور ان ممالک میں موجود قطری شہریوں کو نکال دیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ دوحہ کو 13 مطالبات پر مشتمل ایک فہرست بھی دی گئی تھی، جس میں نشریاتی ادارے الجزیرہ کی بندش، اپنے ملک سے ترکی فوجیوں کی واپسی اور دنیا کے سب سے بڑی گیس فیلڈ میں ایران کے ساتھ بڑھتے تعلقات ختم کرنا شامل تھے۔ تاہم قطر کی جانب سے ان میں سے کسی پر عمل نہیں کیا گیا اور ان تمام الزامات کو مسترد کرتے ہوئے قطر نے نئے سفارتی اور تجارتی روابط کی طرف بڑھنا شروع کیا۔

نئے رابطوں کے ساتھ قطر کی خلیج سے باہر تک توسیع ہوئی اور قطر نے ترکی کے ساتھ اپنے تعلقات کو بڑھایا اور ریاض اور انقرہ کے درمیان بہترین تعلقات قائم ہوگئے ہیں۔ گزشتہ ماہ قطر کے امیر شیخ تمیم بن حماد التھانی نے بحران کے درمیان حمایت کرنے پر ایران کا شکریہ بھی ادا کیا تھا۔ اس حوالے سے لندن کے کنگز کالج میں اسسٹنٹ پروفیسر ڈیوڈ رابرٹس کا کہنا تھا کہ ’ مجھے نہیں لگتا کہ یہ دور کہ بات ہے کہ مشرق وسطیٰ میں ایک نئے طاقت ابھرتی ہوئی نظر آئے گی۔