counter easy hit

وزیراعظم بوسنیا کیوں گئے!

وزیراعظم نواز شریف کے بعض اقدامات سے انسان پزل ہو کر رہ جاتا ہے۔ مجھ پر بھی اسوقت کچھ ا یسی ہی بوکھلاہٹ طاری ہے، کہ بوسنیا میںکیا رکھا ہے جو نوازاشریف نے اس ملک کا قصدکر لیا، یہ ملک سیرو سیاحت کے لئے مشہور نہیں، قدرتی حسن ضرور ہو گا، مشرقی یورپ سارے کا سار اخوبصورت ہے، دل لبھا دینے والا ہے لیکن اس سے آگے، مجھے کچھ سجھائی نہیں دیتا۔
یہی نواز شریف بوسنیا پہلے بھی جا چکے ہیں اور ان دنوں وہ پاکستان میں اپوزیشن لیڈر تھے۔ ایک اپوزیشن لیڈر سے بوسنیا کو کیا دلچسپی تھی کہ اس وقت بھی ان کا اسی گرم جوشی سے استقبال کیا گیا۔
ایک وقت تھا کہ ہمارے حکمران کسی دورے پر نکلتے تھے تو اخبارات میں کرٹین ریزر (پس پردہ کشا) چھپتے تھے اور ہم جیسے سہل پسند تجزیہ نگاروںکے لئے آسانی ہو جاتی تھی کہ ان نکات کو مزید پھیلا سکیں یا ان کی روشنی میں حکومتی دعووں کا تجزیہ کر سکیں، اب صحافیوں کو محنت کی عادت نہیں رہی یا حکومتی میڈیا مینجرز کو پانامہ کے سوا کسی چیز کا ہوش نہیں رہا۔
تو میں خود ہی کچھ ٹیوے لگانے کی کوشش کرتا ہوں، بوسنیا کی پیدائش یوگوسلاویہ کے بطن سے ہوئی۔اور بڑی مشکل اور خونریزی کے بعد ہوئی، کوئی اسے آزاد کرنے کے حق میں نہیں تھا، یوگو سلاویہ کی جگہ سربیا نے لے لی تھی اور وہاںکے حکمران درندوں کی طرح انسانی خون کو چٹ کرنے کے عادی تھے، مسلمانوں کا خون تو ان کے منہ کولگا ہوا تھا اور جو علاقے کسی دور میں سلطنت عثمانیہ کا حصہ تھے، ان کا خون پینا وہ فرض عین سمجھتے تھے۔ اب دیکھئے کہ مشرقی جرمنی اور مغربی جرمنی کس طرح سکون سے ایک ہو گئے اور دیوار برلن کوکس طرح ٹی وی کیمروں کے سامنے ہتھوڑوں سے توڑا گیا اور ناخنوں سے نوچا گیا مگر بوسنیا میں آزادی کی تڑپ پید اہوئی تو سربیا نے اس پر ٹینکوں کے ڈویژن سے یلغار کر دی، اب تو یہ بات راز نہیں رہی کہ جنرل اسلم بیگ نے بوسنیائی فوج کو اسٹنگر بھجوائے، یہ اسٹنگر خوراک کے پیکٹوں میں چھپائے گئے تھے، یہی اسٹنگر تھے جن کی مدد سے افغان مجاہدین نے سویت روس کی فوج کا تیا پانچہ کیا اور انہی اسٹنگروں کی مدد سے بوسنیا نے سرب فورتھ آرمی کے چیتھڑے اڑا دیئے۔ جنرل وحید کاکڑ کے دور میں بھی بوسنیا کے ساتھ عسکری تعلقات میں مزید قربت پیدا ہوئی، یہ بوسنیا کی جنگ آزادی کا دور ہے، لاکھوں افراد کو تہہ تیغ کر دیا گیا، لاکھوں کی تعداد میں ہی بوسنیائی مسلمان ہجرت کی قیامت سے گزرے۔بوسنیا کو قتل وغارت کا صرف اسلئے نشانہ بنایا گیا کہ یہاں کے لوگ اپنی اسلامی شناخت کو چھوڑنے کے لئے تیار نہ تھے۔ اور دنیا کو یہ منظور نہ تھا کہ یورپ کے قلب میں ایک اسلامی ملک قائم ہو جائے۔ مگر یہ ہو کر رہااور یہی ا س ملک کی جیو اسٹریٹجک اہمیت ہے۔
میں پھر سوچتا ہوں کہ بوسنیا نہ تو قطر ہے، نہ یو اے ای، نہ ازبکستان یا تاجکستان اورآذر بائیجان کہ ہم جہاز پکڑیں اور وہاں جا اتریں۔تو پھر نوازشریف ایک جمبو جیٹ لوڈ کر کے وہاں کیوں گئے، کیا ان کے اندر کسی جمال الدین افغانی ، کسی اقبال،کی روح حلول کر گئی ہے اور وہ پان اسلامزم کے عشق میں مبتلا ہو گئے ہیں۔ چین و عرب ہمارا، ہندوستاں ہمارا، مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا، یا ہر ملک، ملک ماست کہ ملک خدائے ماست۔
میںنے یار عزیز بریگیڈیئر صولت رضا کو فون کیا، وہ ایک زمانے میں اس علاقے میں پاک فوج کے ساتھ رہے ہیں اور بوسنیا آتے جاتے رہے ہیں، فوج کے میگزین ہلال میں بوسنیا سے متعلق ان کے اکلام بھی پڑھے جنہیں وی غیر فوجی کالم کہتے ہیں مگر یہ باقاعدہ وردی پوش اور زرہ پوش قسم کے کالم تھے۔انہوں نے بتایا کہ بنیادی طور پر وزیر اعظم کے دورے سے باہمی عسکری تعلقات کو استحکام ملے گا۔ نوجوان دانشور اور عصری امور کے ماہر عبدالغفار عزیز نے قیمتی معلومات بہم پہنچائیں۔ وہ ایک زمانے میں قاضی حسین احمد کی سربراہی میں بوسنیا گئے۔ اس وفد کو ایک اسکول میں لے جایا گیا، یہ پرائمری اسکول تھا، انہوں نے بچوں سے پوچھا کہ کیا آپ پاکستان کے بارے میں کچھ جانتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہاں آم پیداہوتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہاں کی فوج کی شہرت سنی ہے۔میںنے غفار عزیز سے پوچھا کہ آج بوسنیا کی افادیت کیا ہے جو وزیر اعظم کو وہاںکشاںکشاں لے گئی، کہنے لگے کہ بوسنیا کو اپنی دفاعی اور معاشی ترقی کی بے حد فکر ہے اور ا سکے لئے وہ پاکستان کی طرف دیکھتے ہیں۔انہیں بیرونی سرمایہ کاری درکار ہے تاکہ ان کے ملک میں مصنوعات تیار ہوں اور یورپ میں برا ٓمد کی جاسکیں، ان کاپیدا واری خرچ کم ہو گا اور آمدنی زیادہ حاصل ہو گی۔ اس نکتے کو ہمارے وزیراعظم سے زیادہ کون سمجھ سکتا ہے۔
ابھی فون پر یہ گفتگو ختم نہیںہوئی تھی کہ دیوار پر نصب ٹی وی اسکرین پر بوسنیااور پاکستان کے وزرائے اعظم جلوہ گر ہوئے، خاص اعلان یہ تھا کہ دونوں ملکوںنے باہمی ویزے کی شرط اڑا دی ہے اور پاکستانی تاجروں اور سرمایہ کاروںکے وفود بھی بوسنیا جائیں گے۔ وزیراعظم کے پروگرام میں کئی خطاب شامل ہیں جن میں بزنس فورم، چیمبر برائے بیرونی تجارت اور فارن انویسٹمنٹ پروموشن ایجنسی قابل ذکر ہیں۔ وزیراعظم نے بوسنیا ئی پارلیمنٹ کے دوونوں ایوانوں کے اراکین سے بھی ملاقات کرنی ہے، اس لحاظ سے یہ دورہ محض سیر سپاٹے تک محدود نہیں ہے بلکہ انتہائی ثمر آور ہے جس کے لئے پاکستان میں بوسنیا کے سفیر نے بڑی محنت کی ہے۔ پاکستانیوں کو بوسنیا کی پہلی خاتون سفیر بیگم حارث سلاجک کبھی نہیںبھولیں گی، ان دنوں بوسنیا نیا نیا آزاد ہوا تھاا ور سفیر محترمہ کی بے حد پذیرائی ہوئی تھی۔
بوسنیا کے لوگ پاکستان سے محبت کرتے ہیں، ہمیں اس محبت کا جواب محبت سے دینا ہے۔ بوسنیا کے قائد اعظم عالی جاہ عزت بیگو وچ ہیں، وہ ملک کے پہلے صدر بھی بنے، پھر ان کابیٹا صدر بنا، عزت بیگو وچ ایک اسکالر تھے، اقبال سے بے حد متاثر اور علامہ کے اشعار فر فر بولنے والے۔ ہم پاکستانی اقبال کوبھول چکے، بھٹو نے یوم اقبال کی چھٹی صرف ضلع سیالکوٹ میں کی،موجودہ حکومت نے کہیںنہیں کی مگر اقبال آفاقی شاعر ہے ، ایرانی اسے ا قبال لاہوری کہتے ہیں اور اس کے کلام پر سر دھنتے ہیں۔بوسنیا کے لیڈر عزت بیگو وچ اقبال کے پرستار تھے ا ور اقبال کے فلسفے سے متاثر ہو کر تشکیل پا نے و الے ملک پاکستان کو دل میں جگہ دیتے تھے، اب نواز شریف نے اس ضرورت کو محسوس کیا ہے کہ ہم یورپ کے قلب میں واقع دوسرے پاکستان کو اپنے دل میں جگہ دیں۔ نواز شریف کا دورہ محض رسمی نہیں، سیر سپاٹے تک محدود نہیں۔میں یقین سے کہتا ہوں کہ یہ بارآور ثابت ہو گا۔ اس لئے کہ نیت نیک لگتی ہے۔مگر پانامہ پانامہ کا شور ڈالنے والوں کی زبان کون پکڑے گا۔

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website