
شرط یہ ہے کہ ایمان ہاجرہ و ابراہیم زندہ ہو۔ ہجوم ہاکستان کو نہ قوم بننا آیا نہ سر نگوں ہونے کا سلیقہ آیا۔ مسلمان کہلاتے ہےں لیکن مسلمانی کا بھرم بھی نبھانا نہ آ سکا۔ میرے وطن کا پرچم کیوں سر نگوں کرتے ہو….؟ اپنے سر جھکاﺅ، اپنی جماعتوں کے پرچم سر نگوں کرو…. میرا وطن نہ شرمسار ہے نہ گناہگار۔ البتہ شرمندہ ہے تو اس ہجوم پر جو اس کی چھاتی پر عیش و عشرت کر رہا ہے، دولت کے دکھاوے کا مقابلہ، پروٹوکول، بڑی بڑی گاڑیاں، محل نما گھر، گارڈز، اسلحہ کی نمائش، وی آئی پی کلچر کی کھلی عیاشی، مزے تو پاکستان میں رہنے والے امیر طبقہ کے ہیں۔ قبضہ مافیا، سیاسی مافیا، مذہبی مافیا، بزنس مافیا…. ان میں کسی کا نہ سر نگوں ہوتا ہے نہ عیش میں کمی آتی ہے۔ وطن عزیز کا پرچم جبراً سر نگوں کیا جاتا ہے کہ وطن حادثات و سانحات پر غمزدہ ہے لیکن غمزدہ سے زیادہ شرمندہ ہے کہ اس کی چھاتی پر کیسے کیسے ناسور عیاشی میں مست ہےں۔ افسردہ ہے کہ کیسے کیسے نو دو لتیے اس کے سینے پر مونگ دل رہے ہیں اور کیسے کیسے آج اس کا سودا کر رہے ہیں، کبھی ترقی کے نام پر اورکبھی خوشحالی کے نام پر۔ دہشت گردی کی پھر سے ایک نئی لہر چل دی۔ شکریہ راحیل شریف کہاں گئے؟ کچھ عرصہ امن ہوا تھا، پھر لال آندھی آئی ہے۔ یہ ملک صرف ان لوگوں کا ہے جن کے پاس اس ملک کے علاوہ کوئی راہ فرار نہیں۔ کوئی دوسرا گھر بار نہےں۔ کوئی اور ٹھکانہ نہےں۔ انہیں تو جینے دو۔ کہاں جائیں گے یہ پاکستانی جن کا گھر مکان اور ملک صرف پاکستان ہے۔ دہشت گردی عذاب ہے یا رب۔ بے انصاف معاشرے پر عذاب۔ الا ما شا اللہ ہجوم کا ہجوم ظالم مظلوم ہے۔ مظلوم نے بھی کسی نہ کسی سطح پر ظلم کیا ہوتا ہے۔ جس کا جہاں بس چلتا ہے لوٹ مار میں مصروف ہے۔ ایسے بے حس معاشرے میں بم دھماکے کسی عذاب کی علامت ہو سکتے ہیں۔ حاکموں محافظوں کی پالیسیوں اور اعمال کا نتیجہ اس ہجوم بے ترتیب کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ اس وطن پاکستان کا پرچم سر بلند رہنے دو کہ سانحات ہمارا معمول بن چکا ہے اس ملک میں۔ پرچم کو سر نگوں کرنے کی رسم نبھاتے نبھاتے خاکم بدہن کہیں میرا ہریالی پرچم سربلندی کی رسم ہی نہ بھول جائے۔بشکریہ:طیبہ ضیائ ، نوائے وقت








