counter easy hit

ہماری زندگیاں بے سکون کیوں ہوگئی ہیں؟

حالیہ دنوں میں پاکستان میں سائنس و ٹیکنالوجی کی اعلیٰ تعلیم فراہم کرنے والے صف اول کے ادارے ’’نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی‘‘ (نسٹ) کے ایک طالب علم کی خود کشی کا انتہائی افسوسناک واقعہ منظر عام پر آیا۔ 24 سالہ اعزاز گزشتہ ایک سال سے اچھی نوکری کی تلاش میں تھا اور مطلوبہ نوکری نہ ملنے کے باعث سخت دباؤ کا شکار ہو کر ایک دن اس نے اپنی زندگی ختم کرلی۔ اس کے والد کا کہنا ہے کہ وہ گزشتہ کئی ماہ سے ذہنی دباؤ کا شکار تھا اور اس کا علاج چل رہا تھا۔ یہ وہ واقعہ تھا جو منظر عام پر آیا اور خبروں کی زینت بنا لیکن حقیقتاً اس طرح کے کئی واقعات ہمارے ارد گرد آئے دن رونما ہوتے رہتے ہیں۔

کوئی نفسیاتی دباؤ کا شکار ہوتا ہے تو کوئی معاشی بوجھ کا، کسی کو والدین سے شکایت ہوتی ہے تو کوئی اپنی اولاد کے رویّے سے پریشان ہوتا ہے۔ وجہ چاہے کچھ بھی ہو، یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا ہمارے نوجوان اتنے کم ہمت اور بزدل ہوتے جارہے ہیں کہ انہیں اپنے مسائل کا حل صرف موت میں نظر آتا ہے؟ آخر ان کے اس رویّے کا ذمہ دار کون ہے؟ یہ ہم سب کےلیے ایک سوالیہ نشان ہے جس کا جواب ہمیں بہر صورت تلاش کرنا ہے۔

انسان کی فطرت ہے کہ وہ ہمیشہ خوب سے خوب تر کی تلاش میں اپنے آپ کو مگن رکھتا ہے۔ اللہ تعالی نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے، سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے نوازا ہے۔ وہ یقیناً اس بات کا مکمل حق رکھتا ہے کہ جتنا ممکن ہوسکے اپنے اور اپنے اہل و عیال کو زندگی کی تمام تر ضروریات مہیا کرے۔ لیکن کیا صرف اسی کو زندگی کا محور بنا لینا درست ہے؟

آج ہمارا معاشرہ تیزی سے بگاڑ کا شکار ہوتا جارہا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ مقابلہ بازی اور طبقاتی نظام ہے۔ اگرچہ صحت مندانہ مسابقت اچھی چیز ہے اور لوگوں کو اچھے کاموں میں ایک دوسرے سے مقابلہ کرنا چاہیے لیکن فی زمانہ لوگ بحیثیت مجموعی دوسرے کو کچل کر آگے بڑھنے کے سفر میں گامزن نظر آتے ہیں۔ والدین بچوں کو اچھی تربیت دینے کے بجائے اچھا اسٹیٹس دینے کی فکر میں مبتلا ہوگئے ہیں۔

فریدہ باجی کا بیٹا کلفٹن کے بڑے اسپتال میں پیدا ہوا تھا۔ میں محلے کے اسپتال کی ڈاکٹر کو کیوں دکھاؤں؟ رشتہ دار بچے کو دیکھنے آئیں گے تو کیا سوچیں گے؟ فریحہ بھابی کا بیٹا ڈیفنس کی مہنگی مونٹیسری میں پڑھتا ہے۔ ہم اپنے بچے کو معمولی اسکول میں داخل کیوں کرائیں؟ آخر معاشرے میں ہماری بھی کوئی عزت ہے۔ دعوت میں سب نے ڈیزائنر ڈریس پہنے ہوئے تھے۔ مجھے اپنے عام سے جوڑے کو دیکھ کر اتنی شرمندگی ہورہی تھی کہ کیا بتاؤں۔ اسی طرح کی کئی ہزار باتیں جو ہماری زندگی کا سکون غارت کیے جارہی ہیں۔ خوب سے خوب تر کی تلاش میں ہم اپنے آپ کو تباہ کئے جارہے ہیں۔ اچھے سے اچھا کھانا، اچھے سے اچھا پہننا، پرآسائش گھر، مہنگے ترین اسکولوں میں بچوں کو تعلیم دلوانا، یہی سب کچھ زندگی کا مقصد بنتا جا رہا ہے۔

ایک بار اپنے آپ سے سوال کیجیے، اپنا محاسبہ کیجیے۔ کیا یہی زندگی ہے جسے آپ جینا چاہتے تھے؟ کیا اسی بے سکونی کے آپ طلب گار تھے؟ یقیناً نہیں۔

زندگی بہت خوبصورت شے ہے، اسے پرسکون بنانے کی کوشش کیجیے۔ لوگوں کی باتوں کا ڈر نکال کر اپنی زندگی جینے کی کوشش کیجیے۔ ماں باپ کی ذمہ داری صرف بچوں کو مہنگے اسکول کالج میں تعلیم دلوانا اور پر آسائش زندگی دینا نہیں بلکہ ان کی اصل ذمہ داری ان کی بہترین تربیت کرنا ہے۔ ان کو زندگی کی اونچ نیچ کا مقابلہ ڈٹ کر کرنے کا ہنر سکھانا ہے۔

آج ہماری نوجوان نسل شدید مایوسی کا شکار ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ان کے اندر قناعت پسندی جیسی نعمت کی شدید کمی ہے۔ ماں باپ نے کسی نہ کسی طرح کوشش کر کے پروفیشنل ڈگری تو دلوادی لیکن اعلیٰ ترین نوکری تو اب خود ہی تلاش کرنی ہے! معمولی نوکری سے ابتداء کی تو عزت میں کمی آجائے گی اور اعلیٰ نوکری تجربے کے بغیر ملے گی نہیں۔ نتیجہ کیا نکلتا ہے؟ ماں باپ اور لوگوں کے روز روز کے سوالوں سے تنگ آکر زندگی سے فرار کے طریقے ڈھونڈھے جاتے ہیں۔ اچھے اچھے گھرانوں کے نوجوان نشہ، چوری اور ڈکیتی جیسے جرائم کا شکار ہوجاتے ہیں۔ یا جنہیں کوئی راستہ نظر نہیں آتا وہ خود کشی جیسا حرام عمل کر بیٹھتے ہیں۔ قصور ان بچوں کا نہیں ہوتا، ان کی تربیت کا ہوتا ہے، ارد گرد کے بے حس لوگوں کا ہوتا ہے جنہوں نے بچپن سے بچے کے دماغ میں بڑا آدمی بننے کا خواب ٹھونسا ہوتا ہے لیکن یہ نہیں سمجھایا ہوتا کہ بڑا آدمی بننے سے پہلے چھوٹا بننا پڑتا ہے۔ محنت اور کوشش کی سیڑھی پر چڑھ کر کامیابی کو خوش آمدید کہنا پڑتا ہے۔

والدین اپنی بساط سے بڑھ کر بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلوا کر یہ امید لگا لیتے ہیں کہ اگلے دن ان کا بچہ لاکھوں کمانے لگے گا۔ حقیقت کی دنیا میں ایسا شاذ و نادر ہی ہوتا ہے۔ خدارا اپنی اولادوں کو محنت کرنا اور خود پر بھروسہ کرنا سکھائیے، انہیں مناسب وقت دیجیے۔ معمولی تنخواہ پر طعنے دینے کے بجائے ان کی حوصلہ افزائی کیجیے۔ وہ یقیناً ایک دن کامیابی سے ہم کنار ہوں گے۔ ان کی نفسیات اور خواہشات کو سمجھنے کی کوشش کیجیے۔ رزق کا وعدہ تو اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمے لیا ہوا ہے، وہ تو سب اپنے نصیب کا حاصل کرکے رہیں گے۔ اپنی اولادوں کوشارٹ کٹ کا عادی نہ بنائیے۔ یہ صرف وقتی فائدہ تو پہنچا سکتا ہے لیکن مسلسل محنت، مستقل مزاجی اور اپنی ذات پر بھروسہ ہی اصل کامیابی کا ضامن ہے۔

قناعت پسندی اور محنت کے زیور سے آراستہ ہو کر، لوگوں کا خوف اور اسٹیٹس حاصل کرنے کی خواہش نکال کر زندگی گزار کر دیکھیے۔ یقین جانیے بہت پرسکون نیند آئے گی۔