counter easy hit

بلوچستان میں دہشت گردی کی نئی لہر کے پیچھے کون؟

کل بھوشن یادیو اوراس کا نیٹ ورک پکڑے جانے کے باوجود دشمن اپنے مذموم اور خطرناک ایجنڈا پر گامزن ہے۔

بلوچستان میں ریاستی اداروں کے ذمہ داران اہلکاروں اور معصوم و نہتے عوام کے خلاف دہشت گردی کی نئی لہر نے ظاہر کر دیا ہے کہ کل بھوشن یادیو اوراس کا نیٹ ورک پکڑے جانے کے باوجود دشمن اپنے مذموم اور خطرناک ایجنڈا پر گامزن ہے ایسا کیونکر ہے بلوچستان اس کا نشانہ کیوں ہے اور کیا یہاں اس کے مقاصد کامیاب ہو سکتے ہیں؟ بلوچستان میں دہشت گردی، تخریب کاری کے خاتمہ میں ہمارے سکیورٹی اداروں کا کردار کیا ہے ؟اور کیا نیشنل ایکشن پلان کے تحت صوبہ کی ذمہ داریاں پوری ہوئیں؟ یہ وہ بنیادی سوالات ہیں جو بلوچستان میں دہشت گردی کے نئے واقعات کے بعد سامنے آئے ہیں جس میں بحیثیت مجموعی ہماری حکومت اور اداروں کے کردار کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے۔

جہاں تک دہشت گردی کے مقاصد کا تعلق ہے تو جب سے سی پیک کے ذریعے بلوچستان سے پسماندگی کے خاتمہ اور احساس محرومی کے سدباب کیلئے ترقیاتی منصوبوں خصوصاً گوادر کا فعال کردار سامنے آیا ہے دشمن اسے ہضم نہیں کر پا رہا اور یہ ترقیاتی منصوبے دشمن کی آنکھ میں کھٹک رہے ہیں ،جس کے خلاف دشمن نے منظم منصوبہ بنا رکھا ہے ۔اس منصوبے کے تحت بیرونی اور اندرونی طور پر گروپ سرگرم ہیں افغانستان کے اندر ایسے ٹریننگ کیمپ موجود ہیں جو ’’را‘‘ اور’’ این ڈی ایس ‘‘چلا رہے ہیں جہاں دہشت گردی کی ٹریننگ ہوتی ہے اور ٹارگٹ سونپے جاتے ہیں ،جبکہ پاکستان میں لشکر جھنگوی جیسی کالعد تنظیموں کے گروپ شامل ہیں ۔ پاکستان کے ریاستی اداروں خصوصاً فوج ،پولیس اور ایف سی نے بلوچستان میں حکومتی رٹ کی بحالی کیلئے ممکنہ اقدامات کئے اور کر رہے ہیں اور ان اقدامات کے باعث بہت حد تک بلوچستان میں نہ صرف حکومتی رٹ بحال ہوئی بلکہ امن و استحکام آیا ہے ۔لیکن دشمن جس کا بلوچستان کے حوالہ سے اپنا ایجنڈا ہے جس نے بلوچستان میں دہشت گردی اور انارکی کیلئے بڑی سرمایہ کاری کر رکھی ہے چین سے نہیں بیٹھ رہا۔

سیاسی جماعتوں میں بھی کچھ ایسے ہیں جو اپنے مخصوص ایجنڈا پر گامزن ہیں۔ بلوچستان میں پولیس افسر اور اس کے اہلخانہ کا قتل اور ضلع کیچ کے علاقہ گروک میں 15 افراد کو نشانہ بنانے کی ذمہ داری ایک کالعدم تنظیم نے قبول کی ہے اس سے قبل بھی ایک اعلیٰ پولیس افسر اور دو جوانوں کو ٹارگٹ کیا گیا جو ظاہر کرتا ہے کہ دہشت گرد نیٹ ورک اپنے اپنے انداز میں مخصوص ٹارگٹ پر سرگرم ہوئے ہیں مقصد ایک ہی ہوتا ہے کہ بلوچستان کو غیر مستحکم کیا جائے ۔جب تک بلوچستان کے اندر دہشت گردی اور تخریب کاری کے سدباب کیلئے انٹیلی جنس کا منظم اور جدید نیٹ ورک قائم نہیں کیا جاتا اس وقت تک بلوچستان سے دہشت گردی کی جڑیں کاٹنا ممکن نہیں ہو گا اس کیلئے اسلام آباد کا کردار اہم ہے اور جب تک اسلام آباد سے بلوچستان کے حالات میں سنجیدگی ظاہر نہیں کی جاتی مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کئے جا سکیں گے۔

ریاستی مفادات حکومتی رٹ خصوصاً امن و امان اور استحکام کیلئے مستقل بنیادوں پر پالیسی طے ہونی چاہیے اور کسی کو اس میں مداخلت کا حق نہیں ہونا چاہیے ۔ بدقسمتی سے ماضی میں بلوچستان کے حوالہ سے ایسی پالیسیاں اور اقدامات ہوئے جس سے صورتحال میں بہتری آنے کے بجائے صورتحال ابتر ہوئی ۔ ڈکٹیٹر شپ سے جمہوریت کے سفر میں ایک تبدیلی یہ ضرور آئی ہے کہ بلوچستان میں بلوچوں کو آگے لانے کا فیصلہ کیا گیا قوم پرستوں کو دیوار سے لگانے کے بجائے انہیں اقتدار میں حصہ دیا گیا جس سے کسی حد تک حالات میں ٹھہراؤ آیا ۔ اس میں حکومتوں کے ساتھ ساتھ سکیورٹی اداروں کا اہم کردار رہا ہے ۔ جنرل ناصر جنجوعہ، جنرل عامر ریاض کے بعد جنرل باجوہ نے حکومت کے ساتھ ملکر ریاستی رٹ قائم کرنے میں کردار ادا کیا ہے اس سے بلوچستان میں امن نہ صرف بحال ہوا بلکہ سیاسی استحکام کے اثرات نمایاں ہونے لگے اور یہی وہ عمل ہے جو دشمن کو ہضم نہیں ہو پارہا۔اس لئے وہ دہشتگردی کروا رہا ہے ۔ جب تک بلوچستان کے اندر بھیانک کھیل کھیلنے والے دشمن کا اصل چہرہ اور مکروہ کردار دنیا کے سامنے بے نقاب نہیں کیا جائے گا دہشت گردی کی وارداتیں جاری رہیں گی۔