counter easy hit

کہاں ذوالفقار علی بھٹو اور کہاں عمران خان ، دونوں میں البتہ ایک بات ضرور مشترک ہے۔۔۔

لاہور (ویب ڈیسک) جولاہا کپڑا بنتا ہے، ایک ایک دھاگہ۔ مزدور عمارت بناتے ہیں، ایک اینٹ پر دوسری اینٹ۔ حتیٰ کہ جلال و جمال جھلکتا ہوا۔ بہت مشکل ہے دنیا کا سنورنا ۔۔ تری زلفوں کا پیچ و خم نہیں ہے ۔۔ ذوالفقار علی بھٹو اور عمران خان میں کیا کوئی مماثلت ہے؟نامور کالم نگار ہارون الرشید اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اتنی تو بہر حال کہ عمران خان کی طرح وہ بھی ایک کرشماتی شخصیت تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بھٹو کا ورثہ تحلیل ہوتا گیا۔ خود اس کی زندگی میں جے اے رحیم سمیت بعض ہم راہی اسے چھوڑ گئے۔ کارکنوں کی اکثریت مگر لیڈر کے ہم رکاب رہی۔ 4 اپریل 1979ء کی پھانسی نے اسے اور بھی اساطیری حیثیت عطا کر دی ۔ سیاسی زندگی کا آغاز سکندر مرزا سے ہوا۔ آٹھ برس تک وہ فیلڈ مارشل ایوب خان کے وزیر رہے۔ انہیں ایشیا کا ڈیگال اور صلاح الدین ایوبی کہا کرتے۔ ردّعمل کا لمحہ تب آیا، جب تاشقند میں مذاکرات کے ہنگام جنرل نے انہیں ڈانٹا اور ناشائستہ الفاظ استعمال کیے۔ اس کے باوجود پارلیمنٹ میں اعلانِ تاشقند کی انہوں نے وکالت کی۔ ایوب خان کے خلاف میدان میں اس وقت نکلے، جب وہ نا مقبول تھے۔ تب اس جذباتی قوم نے بھٹو کو بھارت کے خلاف آگ اگلتے دیکھا۔یہی مرکزی نکتہ ہے، جذباتیت اور اس کے نتیجے میں خود فریبی سے پیدا ہونے والی شخصیت پرستی۔ بھٹو نے تو کوئی شوکت خانم ہسپتال بھی نہیں بنایا تھا۔ انڈیا کے خلاف ان کی چیخ و پکار ایسی شدید تھی کہ فریب خوردہ قوم نے انہیں ایک بے مثال ہیرو مان لیا۔1965ء کی جنگ کیوں برپا ہوئی؟ تاریخ کے سنجیدہ طالب علم کہتے ہیں کہ مقبوضہ کشمیر میں پاکستانی مہم جوئی سے، بھٹو نے جس کا مشورہ دیا تھا۔ استدلال یہ تھا کہ جموں و کشمیر متنازعہ ہے، جواباً عالمی سرحد دہلی عبور نہ کرے گا۔ ذوالفقار علی بھٹو خیرہ کن ذہانت کے آدمی تھے۔ با خبر، تاریخ اور اپنے عصر کے مزاج آشنا۔ مگر یہ کیسی ذہانت تھی؟ ارے بھائی ، ذہانت کوئی واحد اور مکمل مثبت قدر نہیں۔ خلوص چاہئے ہوتا ہے، دردِ دل۔ اقبال کہتے ہیں۔دلِ ملّا گرفتارِ غمی نیست/ نگاہی ہست، در چشمش نمی نیست ۔۔ ازآن بگریختم از مکتب او/ کہ در ریگ حجازش زمزمی نیست۔۔ملّا کے دل میں درد نہیں۔ آنکھ رکھتا ہے ، آنکھ میں نمی نہیں۔ اس سے میں نے کنارہ کیا کہ اس کے حجاز میں زمزم کا کوئی وجود نہیں۔بھٹو کبھی ایوب خان کو ڈیڈی کہا کرتے۔ فیلڈ مارشل نے وفات پائی تو سرکاری ٹیلی ویژن اور ریڈیو سے خبر نہ نشر ہونے دی۔ اخبارات کو پابند کیا کہ خبر اندر کے صفحے پر غیر نمایاں چھپے۔ ایوب خان میں کتنی ہی خامیاں ہوں مگر وہ پاکستانی صنعت کے معمار تھے، اور ان کے مربّی۔ اخبارات بھٹو کے عہد میں پست اورپیاسے رہے۔ صلاح الدین اور قریشی برادران تو حوالۂ زنداں رہے ہی‘ ان کے ذاتی دوست حسین نقی بھی ۔آزاد اخبارات بند، جو ذرا سی جسارت کرتے، ان کے اشتہار بند، ڈیکلریشن منسوخ۔ مجیب الرحمن شامی اور ان کے رفقا چھ سال حالتِ جنگ میں رہے۔ پیپلز پارٹی کے سیکرٹری جنرل اور منشور ساز جے اے رحیم کو مارا پیٹا گیا۔ پیپلز پارٹی کے درجن بھر ممتاز لیڈر دلائی کیمپ میں پڑے سڑتے رہے۔ عدالت میں ان کے وجود ہی سے انکار کر دیا گیا۔ قومیا کر کارخانے برباد، حتیٰ کہ چاول چھڑنے اور آٹا پیسنے کی ملیں بھی۔ پاکستانی صنعت پھر کبھی نہ سنبھلی۔ سندھی جاگیردار محفوظ رہے۔ زرعی اصلاحات کا شکار ، زیادہ تر مہاجر اور پنجابی ہوئے، یا پھر بلوچستان اور پختونخوا کے سیاسی لیڈر انتقام کا نشانہ بنے۔ 1977ء میں مخالف امیدوار جان محمد عباسی اغوا کر لئے گئے۔ زیادہ سے زیادہ وہ چوتھائی ووٹ لیتے۔ بھٹو کو مگر بلا مقابلہ جیتنا تھا۔ ان کے چاروں وزراء اعلیٰ کو بھی۔ کیا یہ جمہوریت تھی؟ اپنی ہی جماعت کے ملک سلیمان کی تھانے میں تذلیل کی۔ میاں طفیل محمد اور ملک قاسم کے ساتھ جیل میں ایسا سلوک کہ الفاظ نہیں ملتے۔1970ء میں پنجاب اور سندھ میں حکومتیں بنا سکتے تھے، لیکن وہ مرکز میں شریکِ اقتدار ہونے پہ مصر رہے۔ کہا کہ ڈھاکہ میں بلائے گئے اسمبلی اجلاس میں شرکت کرنے والوں کی ٹانگیں توڑ دوں گا۔ احمد رضا قصوری نے جسارت کی، اور سزا پائی۔ قانونی موشگافیاں الگ، احمد رضا کے والد کو اور کس نے قتل کرایا ؟ لیاقت باغ میں اپوزیشن کے جلسے میں اے این پی کے درجن بھر کارکن قتل کیے۔ بلوچستان پہ فوج چڑھا دی، نتیجے میں سرحد کی حکومت بھی مستعفی ہو گئی… یہ ایک تاریک رات کا آغاز تھا۔مشرقی پاکستان میں بھٹو کے کردار کا کوئی انصاف پسند دفاع نہیں کر سکتا۔ ساڑھے پانچ نکات تو مان لیے تھے۔ باقی سے پارلیمنٹ، مغربی اور مشرقی پاکستان میں دبائو ڈال کر روکا جا سکتا تھا۔ یحییٰ خان کے ساتھ ساز باز کرتے رہے۔ یحییٰ خان اور مجیب الرحمن بھی اتنے ہی ذمہ دار ہیں، شاید زیادہ، بھٹو مگر ساتھ نہ دیتے، فوجی کارروائی کی حمایت نہ کرتے تو زیادہ سے زیادہ کنفیڈریشن تک بات پہنچتی۔ وہ دوسروں سے زیادہ جانے جاتے تھے۔ سیاسی کارکنوں کی فوج ظفر موج اُن کے ساتھ تھی۔ مغربی پاکستان کا پورا میڈیا اور مشرقی پاکستان میں معتدل مزاج رہنمائوں کے علاوہ فوج ان کی حمایت کرتی۔جانتے تھے کہ مشرقی پاکستان میں فوج فاتح نہیں ہو سکتی۔ پانچ چھ ہزار ہی تو تھے۔ بعد میں بھی بمشکل 25 ہزار۔ ادھر مکتی باہنی کے ایک لاکھ لڑاکا تھے۔ خود بھارتی سپاہ ملوث، پھر ساری دنیا اسلام آباد کے خلاف۔ بنگالی قوم پرستی فلک گیر تھی۔ ایسے میں آخری درجے کی احتیاط درکار تھی یا پرلے درجے کی مہم جوئی؟ سلیقہ ان میں بہت تھا، جب بروئے کار لانا چاہتے۔ 1973ء میں متفقہ دستور اسی حکمت سے منظور کرایا؛ اگرچہ اگلے ہی دن سادہ اکثریت سے چھ ترامیم کر کے آئین کا حلیہ بگاڑ دیا۔ ایمرجنسی نافذ کر کے بنیادی حقوق چھین لیے۔ عدالتوں کو اپاہج کر دیا۔مگر بعض کارنامے لاجواب ہیں۔ قیمتیں بڑھیں اور مشرقِ وسطیٰ میں تیل کی دولت جگمگائی تو پورا فائدہ اٹھایا۔ ایک وقت آیا کہ دس کروڑ میں سے پچاس لاکھ پاکستانی مشرق وسطیٰ میں برسرِ روزگار تھے۔ آج بھی پاکستان کا سب سے کھرا اور ایک بڑا معاشی اثاثہ وہی ہیں۔ اس سے بھی بڑا کارنامہ ایٹمی پروگرام ہے۔ 1983ء میں ایٹم بم کی تکمیل جنرل محمد ضیاء الحق کے دور میں ہوئی لیکن اگر بھٹو نے ابتدا نہ کی ہوتی؟آخر تجربے میں وہ ایک قوم پرست تھے مگر انتقام اور اقتدار کے جذبات سے سرشار۔ اگر قائداعظمؒ سے آدھا جذباتی توازن بھی ہوتا تو تاریخ انہیں جدید پاکستان کا معمار مانتی۔ بھٹو کی کہانی کا سبق کیا ہے؟ اس ناچیز کی رائے میں لیڈر ان معاشروں میں ابھر کر بے قابو ہوتے اور من مانی کرتے ہیں، جو جہل کے سبب جذباتیت کی گرفت میں ہو۔ لیڈر بھی آدمی ہوتا ہے۔ گاہے فسوں خیز شخصیت، غیر معمولی صلاحیت اور ریاضت کے باوجود اپنی جبلّتوں، اپنی خواہشات کا بنا۔ اسے ٹوکنے کی ضرورت ہوتی ہے، روکنے کی۔عمران خان کے باب میں بھی غلطی یہی ہے۔ امید ہے کہ پروردگار مجھے معاف کر دے گا اور یہ مہربان قوم بھی۔ جو لوگ ذمہ دار ہیں، یہ ناچیز ان میں شامل ہے، بلکہ سرِ فہرست۔ ایک ایک کر کے حامی اخبار نویس اب توبہ کر رہے ہیں۔ سرپرست اور ساتھی پریشان ہیں۔ پریشان ہی نہیں دکھی اور دل شکستہ ہیں۔ بھٹو کی طرح اقتدار کی محبت میں عمران خان نے سمجھوتہ کیا، اس قدر سمجھوتہ کہ ہر قسم کا کچرا قبول کر لیا۔ ٹکٹ جاری کرنے کا نظام تک خود نہ بنایا۔ دوسروں کے سپرد کیا۔کیا اب اسی طرح کی تحریک اٹھائی جائے، جیسی بھٹو کے خلاف؟ کیا اسے اٹھا پھینکا جائے؟ بھٹو کو اٹھا پھینکنے سے کیا ملا؟ ماحول میں ایسی تلخی گھلی کہ آج تک باقی ہے۔ پھر اس خلا کو کون پر کرے گا؟ پھر یہ کہ عمران خان کو ایجی ٹیشن یا سازش سے الگ کرنے کا فائدہ؟ جذباتیت کی یہ دوسری انتہا ہوگی۔ قوموں کی اصلاح ریاضت و دانائی سے ہوتی ہے، چیخ و پکار سے نہیں۔ ہیجان عقل و معرفت کا دشمن ہے۔ کوئی مختصر راستہ نہیں، ہرگزنہیں۔ وہی تربیت، حسن ِکردار اور علم کا فروغ۔ حکومت پہ تنقید چاہئے مگر اس سے نفرت نہیں۔ جولاہا کپڑا بنتا ہے، ایک ایک دھاگہ۔ مزدور عمارت بناتے ہیں، ایک اینٹ پر دوسری اینٹ۔ حتیٰ کہ جلال و جمال جھلکتا ہوا۔بہت مشکل ہے دنیا کا سنورنا ۔۔ تری زلفوں کا پیچ و خم نہیں ہے۔