counter easy hit

سفید پوش، لاک ڈاؤن سے متاثر ہونے والا طبقہ

معززقارئین سال 2020 کی شروعات ایک طبعی حملے سے شروع ہوئی جس کا تعلق ایک ان دیکھے قاتل جراثیم سے ہوا، تحقیق رموز واقعات اشارے اور حالات کےتناظر میں یہ کہنا مناسب ہوگا کہ دنیا اپنے بڑھاپے کی جانب بڑھ رہی ہے، اس کے بڑھاپے میں نیک بزرگوں نے بار یابار آگاہ کیا ہے کہ اب وقت شروع ہواچاہتا ہے کہ کیونکہ اب ظالمانہ مملوکیت کا راج جاری ہے، اب دولت کمانے کیلئے ہر راستے اپنائے جارہے ہیں، طوائفیں راجہ مہاراجہ کو جنم دے رہی ہیں، قلم اور زبان بک رہےہیں، زرد صحافت عام ہوچکی ہے گویا غلام گیری چاپلوسی ہی صحافتی اقدار بن چکی ہے، کمزور اور سادہ لوہ صحافی حالات کی چکی میں پس رہے ہیں، عدل و انصاف زمانے سے اٹھ چکا ہے، شریف النفس لوگ کمتر اور حقیر سمجھے جارہے ہیں، مخلص ایماندار اور سچے لوگوں کی بے قدری ہو رہی ہے، زنا عام ہوگیا ہے، بچوں اوربچیوں کو ہوس کا نشانہ بناکر مارا جارہا ہے، ایسے بے حس معاشرے میں جہاں الله واحد لاشریک اور آخری نبی کریم ﷺ سے محبت دکھاوا اور کمرشل بنادی گئی ہو وہاں عذاب یا جھنجھوڑا نہیں جائیگا تو پھر کیا ہوگا الله قادر مطلق ہے، سیٹھ، جاگیردار، وڈیرے، نواب اور میڈیا مالکان خود کو خدا سمجھ بیٹھے ہیں، بعد میں بات کرتے ھیں الله کی زمین پر اپنانظام رائج کرنا چاہتے ہیں کیا انہیں الله پر یقین نہیں جو بیروزگار کرتے ہیں یہی وہ بد اعمال ہیں جس کی وجہ سے دنیا بھر کے انسان پکڑ میں ہیں ۔۔۔۔معزز قارئین!! دنیا کے دو سو سے زائد ممالک میں پاکستان بھی متاثر ہوا ہے، یہاں پر پہلے ہی اشرفیہ نے تہس نہس کررکھا تھا اب ان حالات نے سفید پوش لوگوں کا جینا محال کردیا یے، یوں تو پاکستان بھر میں فلاحی اور انسانی دردکو سمجھنے والی شخصیات نے راشن تقسیم کرنے کا عمل شروع کیئے رکھا یے وہیں ملک بھر میں سب سے زیادہ کراچی کے فلاحی ادارے اور درد مند لوگ بڑھ چڑھ کر پہلے ہی دن سے خدمت میں مصروف ہیں انہیں ہمدرد انسانوں میں سے ایک فلاحی شخص نے مجھے بتایا کہ تین اپریل ک جمعہ کی رات ایک صاحب کی نشان دہی پر سفید پوش خاندان کو راشن دینے کے بعد جب سرجانی سے گھر واپسی کیلئے فور کے جہاز چورنگی نارتھ کراچی سے گذرنے لگا تو ہر طرف سنّاٹے اور گھٹا ٹوپ اندھیرے کا راج تھا، ایسے اندھیرے میں ایک دھیمی سی آواز آئی: ’’بھائی مدد۔‘‘میں نے یہ سوچ کر نظر انداز کرنا چاہا کہ کوئی پیشہ ور گداگر ہوگا لیکن دل میں خیال آیا کہ پیشہ ور ہوتا تو اندھیرے میں یوں اس وقت کھڑا نہ ہوتا۔ گاڑی روک کر پاس گیا تو کہ دیکھا اندھیرے میں ایک شخص منہ پر ہاتھ رکھے کھڑا ہے،’’جی بھائی!‘‘
میں نے دریافت کیا ’’کیسی مدد چاہیے؟ اور یوں منہ چھپائے اندھیرے میں کیوں کھڑے ہو؟‘‘ ‘’ہاتھ توہٹائیے۔‘‘.. میں نے کہا۔تب اُس نے اپنے ہاتھ چہرے سے ہٹائے۔ الله کی پناہ! اس شخص کے گال آنسوؤں سے بھرے تھے اور گھٹی گھٹی آواز میں رو رہا تھا۔ دونوں ہاتھوں کو گالوں سے ہٹا کر معافی مانگنے کے انداز میں جوڑ کر کھڑا ہوگیا اور سر نیچے جھکا لیا۔ میں اس اندھیرے میں بھی اس کے آنسو ٹھوڑی سے ٹپکتے دیکھ پا رہا تھا۔ مجھے اپنے اندر کچھ ٹوٹتا ہوا محسوس ہونے لگا۔ ’’بھائی کچھ تو کہیے۔‘‘آگے بڑھتے ہوئےدوبارہ ہمدردی سے پوچھا۔کچھ کہنے کے بجائے وہ شخص آگے بڑھا اور گلے لگ کر دھاڑیں مار مار کے رونے لگا۔
’’بھائی! … بھائی!‘‘ ہچکیاں لیتے ہوئے گویا ہوا … ’’میں بھوکا رہ لوں گا لیکن مجھ سے اپنی دو چھوٹی بچیوں کی بھوک دیکھی نہیں جاتی اُن کا بھوک سے تڑپنا، بلکنا مجھ سے برداشت نہیں ہوتا۔‘‘ ’’کل سے گھر میں کھانے کو ایک دانہ نہیں اور میری بچیاں صبح سے ’’بابا بھوک لگی ہے، بابا بھوک لگی ہے، بابا کھانا لاؤ۔‘‘ کی فریاد کر رہی ہیں۔ بھائی کبھی زندگی میں ایسا نہیں ہوا کہ میری بچیاں بھوکی سوئی ہوں۔ روزانہ کھانے کے ساتھ بچیوں کے لیے پھل بھی لاتا تھا۔ آج بچیاں کہتی ہیں ’’بابا بھلے ہمیں پھل نہ دو، ہم ضد نہیں کریں گی، پر کھانا تو دے دو۔ آپ تو بابا ہماری ہر بات مانتے تھے، اب ہم کھانا مانگ رہے ہیں تو کھانا کیوں نہیں دیتے؟‘‘ ’’صاحب! میں فقیر نہیں ہوں۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے حالات ایسے ہوگئے۔ کبھی کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلایا۔ صاحب! آپ گھر چل کر دیکھ لو۔ آٹے کا ایک ذرّہ بھی نکلے تو جو چور کی سزا آپ میرا شناختی کارڈ رکھ لو، جتنے فوٹو کھینچنے ہیں کھینچ لو بس میری بچیوں کو چل کر اپنے ہاتھ سے کھانا دے دو۔ میں اور بیوی بھوکے سو جائیں گے۔‘‘یہ کہہ کر ہ شخص پھوٹ پھوٹ کر دوبارہ رونے لگا۔ دل میں خیال آیا کہ ’’میں بھی بیٹی کا باپ ہوں۔ … خدا نہ کرے کبھی میری بیٹی پر ایسا وقت۔‘‘ … نہیں نہیں۔ … خدا کی قسم کلیجہ پھٹ کر گلے کو آ رہا تھا۔ … سارا جسم کانپ سا گیا۔ … زبان جیسے بولنا بھول گئی۔ خاموشی سے اُس شخص کو گاڑی میں بٹھایا اور اپنے گھر کی جانب چل پڑا۔ دورانِ سفر اس نے بتایا کہ اُس کا نام صابر ہے۔ تیرہ سال سے گھروں پر کلر کا کام کرتا ہے۔ محنت مزدوری کر کے اپنا گزر بسر کرتا تھا لیکن لاک ڈاؤن کی وجہ سے حالات خراب ہوگئے۔ جان پہچان والوں سے مانگنے کی ہمت نہیں پڑی۔گھر پہنچ کر میں نے راشن کے تھیلے گاڑی میں رکھے اور صابر کے گھر کی جانب روانہ ہوگیا۔ گھر کیا تھا بس ایک کمرا تھا۔ وہی ڈرائنگ روم، وہی بیڈ روم اور وہی کچن۔ نہ صوفے تھے نہ بیڈ۔ نہ الماری تھی نہ فریج۔بس ایک کونے میں بجھا چولہا صابر کی مفلسی کو منہ چڑا رہا تھا اور دوسرے کونے میں دو پھول سی بچیاں بھوک کی چادر تانے سو رہی تھیں۔صابر کی بیگم نے بتایا کہ بھائی صاحب جب بچیوں کا رونا برداشت نہ ہوا تو میں نے انہیں کھانسی کا شربت تھوڑا زیادہ مقدار میں پلا کر سلا دیا۔روح تک کو کسی نے جیسے جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہو۔لرزتے دل، کپکپاتے ہاتھوں اور نم آنکھوں کے ساتھ راشن کے تھیلے کمرے کے کونے میں رکھ کر ایک پیار بھری نظر بچیوں پر ڈال کر اس دعاء کے ساتھ صابر کے گھر سے نکل گیا کہ’’اے اللّٰہ! ان بچیوں کے نصیب اچھے فرما، اپنی مخلوق پر رحم فرما، بھوکوں کی مدد فرما۔ آمین!‘‘ الله تعالٰی سے دعا ہے کہ ہم سب کو توفیق بخشے کہ ہم اپنے آس پڑوس میں موجود کسی صابر کے احوال سے آگاہ رہیں اور یوں ان کو اپنے پھول سے بچوں کو بھوکا سلانے کے لیے کسی نشہ آور دوا کی ضرورت پیش نہ آئے۔۔۔۔معزز قارئین!!مورخ کب سندھ کے حالات لیکن میں اب لکھ رہا ہوں، کراچی سمیت بھر میں ہر سال آنے والے بجٹ میں کس قدر عملی مثبت اقدام ہوا، کتنے اسپتال، اسکول، سڑکیں، ٹرانسپورٹ میں بہتری لائی گئی، تھر میں ہزاروں بچوں عورتوں بوڑھوں کا بھوک اور علاج نہ ہونے کے سبب اموات ہوئیں،مجھے خود اندرون سندھ کے رہنے والے بتاتے ہیں کہ تیس سال سے زائد ہم نے پی پی کو جتایا لیکن لاڑکانہ ہو یا میرپورخاص، ڈگری ہو یا عمرکوٹ، کھپرو ہو یا سانگھڑ، خیرپور میرس ہو یا پریالو، کمبٹ ہو یا رانی پور حتی کہ حیدرآباد نوابشاہ اور ٹھٹھہ بھی رہے ترقی کاموں سے محروم، کراچی والے یہ کہتے ہیں ایم کیو ایم نے بھی سالوں سال راج کیا اب تو قرض لوٹادیتے اور ہاں کراچی میں پی ٹی آئی مایوس کن ثابت ہوئی ہے، ایک بوڑھی ماں کہنے لگی مجھ سے خیر یہ بھی وقت گزر جائیگاتو دیکھنا بیٹا یہ سب الله کی پکڑ میں آگئیں گے اورزمانہ ان ظالموں کے انجام سے پناہ مانگے گا بیٹا کفار کی حکومت چل سکتی ہے مگر ظالم کی نہیں تم نے دیکھا نہیں آج الطاف حسین کا حال اس نے ظلم کیا بی بی ظلم کیا اور پھر بی بی کے شوہر نے اس پر ظلم کیا بیٹا جو ظالم بنتے ہیں وہ کیفر کردار تک پہنچتے ہیں ہم صبر شکر کرکے بھوکے سوجائیں گے مگر ظالم سکون سے نہیں سو سکیں گے۔۔۔۔۔معزز قارئین!! اس بوڑھی خاتون نے مجھے بھی جھنجھوڑ دیا ہے اور دعا کرتا ہوں الله مجھے ظالموں جھوٹوں اور مفقوں سے محفوظ فرمائے رکھ آمین ثما آمین۔۔۔

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website