counter easy hit

جانے کیا لِکھے گا ؟ جج صاحبان کا خامہؔ!

مرزا  غالب  نے اپنی سراپا ناز ( سر سے پائوں تک ناز و ادا اور غرور سے بھرپور )دوست سے ’’ پیش دستی‘‘ ( چھیڑ چھاڑ) کی اور جواباً ، اُس سراپا ناز نے مرزا صاحب کی ’’ دَھول دھپّا‘‘ سے تواضح کی تو اُنہوں نے کہا کہ …
’’ دَھول دھپّا ، اُس سراپا ناز ، کا شَیوہ نہ تھا
ہم ہی کر بیٹھے تھے غالبؔ، پیش دستی ، ایک دِن‘‘
دَھول دھپّا کامطلب ہے کسی کو ، اُس کے مُنہ اور سر پر چانٹوں / تھپڑوں سے مارنا۔ مرزا غالبؔ نے تو اپنی غلطی تسلیم کر لی تھی۔ اب کیا کِیا جائے کہ ، 26 جنوری کو قومی اسمبلی کے ایوان میں مسلم لیگ ن اور پاکستان تحریک انصاف کے ارکان کا آپس میں ’’ دَھول دھپّا ‘‘ ہی بلکہ اور بھی کچھ ہُوا۔ الیکٹرانک میڈیا پر دکھایا / سُنایا گیا اور پرنٹ میڈیا پر بتایا / پڑھایا گیا کہ ’’ مار کٹائی ، دِھینگا مشتی، گھونسوں ، دھکّوں ، گالیوں ، الزامات ، نازیبا اشاروں کا تبادلہ ہُوا۔ کئی ارکان نے ایک دوسرے کے گریبان پھاڑے اور کئی ڈیسکوں پر چڑھ گئے ۔ کچھ ارکان گُتھّم گُتھا ہوگئے۔ اسلام آباد کے مختلف علاقوں میں قُدرتی بارش ہورہی تھی اور ایوانِ اسمبلی میں کئی ارکان ایک دوسرے پر مکّوں کی بارش کر رہے تھے۔
’’ ایوانِ قومی اسمبلی میں جمہوریت کا حُسن؟‘‘
وطنِ عزیز میں جب بھی حکمران پارٹی ( اُس کے اتحادی جماعتوں ) اور حزبِ اختلاف کی جماعتوں میں اختلاف یا مخالفت کا روّیہ بڑھنے لگے تو اُسے’’ جمہوریت کا حُسن‘‘ کہا جاتا ہے ۔ کچھ لوگ کسی مغربی مفکر کے اِس قول کی جُگالی کرتے رہتے ہیں کہ ’’ بدترین جمہوریت بھی بہترین آمرت سے اچھی ہوتی ہے‘‘۔ کیا وہ خواتین و حضرات 26 جنوری کو قومی اسمبلی کے ’’ دَھول دھپّا کے ثقافتی پروگرام ‘‘ کو بھی جمہوریت کا حُسن قرار دیں گے؟۔ شاعر نے کہا تھا کہ…
’’ تمہاری زُلف میں پہنچی ، تو حُسن کہلائی
وہ تِیرگی ، جو مرے نامۂ سیاہ میں ہے‘‘
آج کے دَور میں اُن 60 فی صد لوگوں پر یہ شعر صادق نہیں آئے گا جو غُربت کی لکیر سے نیچے دھکیل دئیے گئے ہیں اور کسی بھی دَور میں ارکانِ پارلیمنٹ ( قومی اسمبلی + سینٹ ) ، سپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینٹ صاحبان اُن کے لئے کچھ بھی نہیں کر سکے اور مفلوک اُلحال لوگ اُن کا بھی کچھ نہیں بگاڑ سکے۔ ایوانِ قومی اسمبلی میں جو کچھ ہُوا ۔ اِس طرح کے مناظر / واقعات ہر روز دیہات اور شہروں کی گلیوں / محلوں میں دیکھنے کو مِلتے ہیں ۔ پولیس ایسے لوگوں کو تعزیراتِ پاکستان کی کسی نہ کسی دفعہ کے تحت گرفتار کرلیتی ہے اور پھر بڑے لوگوں کی سفارش مان کر یا رشوت لے کر اُنہیں چھوڑ دیتی ہے۔
’’شور ، شور اور چور ، چور ‘‘ کے نعرے
پاکستان تحریکِ اِنصاف کے جناب شاہ محمود قریشی نے ’’ گلی ، گلی میں شور ہے ، نواز شریف چور ہے ‘‘کا نعرہ لگایا اور لگوایا تو ہنگامہ ہوگیا۔ مسلم لیگ ن کے ارکان نے بھی ’’ گلی ، گلی میں شور ہے ، عمران خان چور ہے ‘‘ کا نعرہ لگایا اور لگوایا ’’ دَھول دھپّا ثقافتی پروگرام ‘‘ میں ’’ پاکستان پیپلز پارٹی الیون‘‘ نے حِصّہ نہیں لِیا۔ امریکہ میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کے منتظر جناب آصف علی زرداری کے خلاف ’’ چور ‘‘ ہے کا نعرہ کسی نے بھی نہیں لگایا۔ اِسے کہتے ہیں ’’ہر دَور کی سیاست ‘‘ جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا لارجر بنچ پانامہ لِیکس کیس کی سماعت کر رہا ہے لیکن عدالت کے باہر مسلم لیگ کے وزرائ، جناب عمران خان اور اُن کے ساتھی ، شیخ رشید احمد ، جناب سراج اُلحق اور دوسرے راہنماعدالت سے باہر اپنی اپنی عدالتیں سجائے رکھتے ہیں اور جِسے چاہیں ’’ چور ہے چور ہے ‘‘ کے نعرے لگاتے ہیں ۔ کوئی پکڑ دھکڑ نہیں ہوتی تو ایوانِ قومی اسمبلی میں ’’ چور ہے ، چور ہے ‘‘ کے نعرے لگانے والوں کو کون پکڑے گا؟۔
جنابِ بھٹو اور میاں نواز شریف
معزول وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو پر نواب محمد احمد خان کے خلاف قتل کی سازش میں بڑے ملزم کی حیثیت سے ہائی کورٹ اور پھر سپریم کورٹ میں مقدمہ چلایا گیا ۔ با وردی جنرل ضیاء اُلحق صدر تھے اور ’’ بدترین جمہوریت‘‘ بھی نہیں تھی۔ بھٹو صاحب جیل میں تھے ۔ قتل کا مقدمہ سیدھا سادہ فوجداری تھا، جِسے بھٹو صاحب اور اُن کے وُکلاء نے سیاسی مقدمہ بناکر لڑا، بھٹو صاحب پر کرپشن کا کوئی الزام نہیں تھا اور میڈیا بھی اتنا آزاد نہیں تھا جتنا کہ آج ہے ۔ صورت یہ ہے کہ میاں نواز شریف وزیراعظم ہیں اور پارلیمنٹ بھی …
’’ بندوں کو گِنا کرتے ہیں ، تولا نہیں کرتے‘‘
کے اصول کے مطابق آزادؔ ہے سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے ’’ بُری بھلی‘‘ جمہوریت کو چلنے دِیا اور با عِزّت ریٹائر ہوگئے ۔ ’’فی الحال تو جنرل قمر جاوید باجوہ کی بھی اقتدار سے کوئی دلچسپی نظر نہیں آتی۔ عدلیہ تو مکمل آزاد ہے اور اب مسلم لیگ ن کی قیادت اور وفاق اور پنجاب کے مُنہ پھٹ وزراء کا سپریم کورٹ پر قبضہ اور جج صاحبان کو ہراساں کرنے کا خیال بھی ۔ خیالِ خامؔ ہی ہوگا۔ پانامہ لِیکس کے بارے میں قُدرت الٰہی نے پاک فوج ، عمران خان ، شیخ رشید احمد اور جناب سراج اُلحق کو نہیں بتایا کہ فیصلہ کیا ہوگا ؟ پنجابی کے نامور شاعر سیّد وارث شاہ نے کہا تھا کہ …
’’ تقدیر اللہ دی نُوں کون موڑے؟
تقدیر کِسے توں نہ ہٹّ دِی اے‘‘
بھٹو خاندان اور نواز شریف خاندان!
نواب محمد احمد خان کے مقدمۂ قتل میں جنابِ بھٹو ملزم تھے ۔ بیگم نصرت بھٹو ، محترمہ بے نظیر بھٹو، صنم بھٹو، شاہ نواز بھٹواور مرتضیٰ بھٹو مقدمے میں ملوث نہیں تھے لیکن پانامہ لِیکس کیس میں وزیراعظم نواز شریف ، اُن کی اہلیۂ بیگم کلثوم نواز، اُن کے دونوں بیٹے حسین نواز، حسن نواز اور ایک بیٹی مریم نواز کے نام آتے ہیں ۔ دوسری بیٹی عاصمہ علی ڈار ( وفاقی وزیرِ خزانہ جناب اسحاق ڈار کی بہو) کا نام نہیں ۔ اہم بات یہ ہے کہ کسی بھی ’’ بیرونی اور اندرونی طاقت‘‘ نے میاں نواز شریف کی وزارتِ عظمیٰ کو نہیں چھیڑا اور نہ ہی اُن کے وفا دار چھوٹے بھائی میاں شہباز شریف کی وزارتِ علّیہ پنجاب کو ۔ ججّ صاحبان سے ہر کسی کو انصاف کی توقع ہے ۔ بھٹو صاحب کے خلاف مقدمہ کی سماعت کرنے والے جج صاحبان کے بارے میں نہ جانے کِس کِس نے کیا کیا کہا؟۔
جج صاحبان کا اپنا اپنا خامہؔ ؟
بھٹو صاحب کی پھانسی کو ’’ عدالتی قتل‘‘ کہا گیا ۔ تعزیراتِ پاکستان کے تحت کرپشن کیس میں پھانسی کی سزا نہیں اور پھر منتخب وزیراعظم کو پھانسی؟ کیس کی سماعت ( تعطیلات کے سِوا) ہر روز ہو رہی ہے ۔ وزیراعظم ، اُن کے بچوں ، عمران خان ، شیخ رشید احمد ، جناب سراج اُلحق کے وُکلاء کو پورا موقع دِیا جا رہاہے ۔ قطری ؔ شہزادے کا خط ہو یا صفائی کوئی اور ثبوت ، سپریم کورٹ کے جج صاحبان ، پانامہ لِیکس کیس کو ’’مفادِ عامہ کا مقدمہ ‘‘ قرار دے چکے ہیں ۔ قومی اسمبلی میں دِھینگا مشتی کے بعدبھی شواہد کے مطابق فاضل جج صاحبان کا اپنا اپنا خامہ ( قلم ) فیصلہ لِکھے گا۔ ’’ شاعرِ سیاست‘‘ کہتے ہیں …
’’ نیا ہو کوئی ، قطریؔ خط یا وکالت ؔنامہ؟
دَھول دھپّا ، ہو ایوانؔ میں یا ہنگامہ؟
کیس پانامہؔ بن گیا، کیس مُفادِ عامہؔ!
جانے کیا لِکھّے گا ، ججّ صاحبان کا خامہ ؔ؟ ‘‘

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website