counter easy hit

“آئی ایس آئی” اور “را” اپنے مقاصد کو پورا کرنے کے لیے کن چیزوں کا سہارا لیتی ہیں؟ خفیہ ایجنسی کے سابق سربراہان کے تہلکہ خیز انکشافات

پاکستان اور بھارت کے خفیہ اداروں آئی ایس آئی اور ’’را‘‘ کے سابق سربراہوں لیفٹیننٹ جنرل (ر) اسد درانی اور اے ایس دولت نے اپنے اداروں کی خوبیوں اور خامیوں کی نشاندہی کے ساتھ ان کا اعتراف بھی کیا ہے دونوں کی نظر میں آئی آیس آئی اور ’’را‘‘ برابر کے اچھے ادارے ہیں۔

آئی ایس آئی کی کامیابی یہ ہے کہ اس کا کوئی آپریٹر کھلے عام پکڑا نہیں گیا۔ امرجیت سنگھ دولت کے مطابق بھارت میں ’’را‘‘ اور آئی بی مل کر کام کرتے ہیں۔ اسد درانی کا اعتراف ہے کہ پاکستان میں ایسا تعاون شاذو نادر ہی دکھائی دیتا ہے۔ اسد درانی کا کہنا ہے ایک بار ایک امریکی صحافی نے ان سے بھارتی ایجنسی ’’را‘‘ کے بارے میں نقطہ نظر دریافت کیا، اس کا مقصد انہیں اشتعال میں لانا تھا۔ اسد درانی کا جواب تھا ’’کم از کم ’’را‘‘ ہماری اتنی ہی بہتر ہے۔‘‘ اس کا انکشاف اسد درانی نے اپنی حالیہ کتاب ’’دی اسپائی کرانیکلز، ’’را‘‘،آئی ایس آئی اینڈ اِلیوژن آف پیس‘‘ کے باب آئی ایس آئی اینڈ را میں کیا۔ یہ کتاب دونوں جاسوس سربراہوں کے درمیان ملاقاتوں کی یادداشتوں پر مشتمل ہے۔ جسے بھارتی صحافی اور مصنف ادتیا سنہانے ترتیب دیا ہے۔ اس باب میں اسد درانی مزید کہتے ہیں کہ دس سال قبل درجہ بندی (ریٹنگ) کی ویب سائٹ پر دیگر فہرست کے ساتھ دینا کی دس بہترین جاسوس ایجنسیوں کی بھی فہرست تھی۔ جس میں آئی ایس آئی کو نمبر ایک قرار دیا گیا۔ موساد، سی آئی اے اور دیگر اداروں کے نمبر اس سے نیچے تھے۔ اسد درانی کی رائے میں آئی ایس آئی کی کارکردگی جانچنے کا بہترین وقت افغانستان پر سوویت یونین کے قبضے کے دوران تھا۔

لیکن جیسے ہی سردجنگ ختم ہوئی خطے میں ہمارے ارادے اور مقاصد بھی بدل گئے۔ آئی ایس آئی اس کی کلید تھی۔ دوسرا کارنامہ یہ تھا کہ آئی ایس آئی کا کوئی آپریٹر سر عام پکڑا گیا اور نہ ہی اس کی نشاندہی ہوئی۔ جب ادتیاسنہا نے اسد درانی اور اے ایس دولت دونوں سے آئی ایس آئی اور ’’را‘‘ کی سب سے بڑی ناکامیوں کے حوالے سے دریافت کیا تو ’’را‘‘ کے سابق سربراہ اے ایس دولت نے بتایا کہ پاکستان کے خلاف ہماری سب سے بڑی ناکامی یہ تھی کہ بھارت کسی آئی ایس آئی افسر کو اپنی جانب موڑ سکا اور نہ ہی ’’را‘‘ کے لئے کام کرنے پر آمادہ کر سکا۔ اگر آپ واپس سرد جنگ کی طرف جائیں تو سی آئی اے افسر کا اصل کام کیا رہا؟ کہ مخالف ایجنسی سے کسی منحرف کو ڈھونڈ نکالیں۔ اگر سی آئی اے کا افسر اس میں کامیاب ہو جاتا تب اسے زندگی بھر کام کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ لیکن بھارت ایسا کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ بلکہ اس کی اہمیت کو ٹھیک طرح سے سمجھا ہی نہیں گیا۔ ادتیاسنہا نے دریافت کیا اگر آئی ایس آئی کے اندر ہمارا اپنا جاسوس ہو تو کسی کو کیا معلوم ہوتا؟ اے ایس دولت کا کہنا تھا کہ ایسے اندرونی جاسوس رکھنا آسان ہے بجائے اس کے منحرف تلاش کئے جائیں۔ اس موضوع پر اسد درانی کا کہنا تھا کہ 1965ء کی جنگ میں آپریشنل سطح پر ہم دعویٰ کر سکتے ہیں کہ حریف کے بارے میں ہمیں بہتر معلومات حاصل تھیں۔

لیکن 1971ء کی جنگ میں آئی ایس آئی مشرقی پاکستان پر بھارتی حملے کا پیشگی اندازہ نہیں لگا سکی۔ اپنے وقت میں میرا یہ کہنا تھا کہ کشمیر میں تحریک آزادی کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں کے بعد بھارت کی فوجی تیاریاں جنگ چھیڑنے کی نیت سے نہیں تھیں۔ لیکن ہماری سب سے بڑی ناکامی یہ تھی کہ کشمیر میں تحریک آزادی کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں کے باعث بھارت کی بڑھتی ہوئی جنگی تیاریاں جنگ چھیڑنے کی نیت سے نہیں تھیں لیکن ہماری سب سے بڑی ناکامی یہ تھی کہ کشمیر میں تحریک حریتکس قدر دور رس ہوگی۔ جب اس نے طول پکڑا تو ہمیں فکر ہو گئی۔ اس کے ساتھ کیسے نمٹا جائے ہم اسے بے قابو ہونے دینا نہیں چاہتے تھے۔ جس کے نتیجے میں جنگ چھڑ جاتی اور فریقین میں سے کوئی بھی یہ نہیں چاہتا تھا۔ آیا اس پر قابو پایا جا سکتا تھا؟ یہ ہمارا چیلنج تھا۔ کشمیر میں شورش پرآئی ایس آئی کا کنٹرول کم کامیاب رہا۔ خصوصاً مجھے آج تک افسوس ہے کہ ہم نے امان اللہ گلگتی کو زیادہ سنجیدہ کیوں نہیں لیا۔ اس کے گروپ نے شورش کی قیادت کی۔ اسی نے شروع کیا۔ میں جب آئی ایس آئی میں تھا تو اس سے ملاقات ہوئی تھی۔ وہ اس وقت اہم نہیں لگتا تھا۔ بہرحال اس کا تیسرا آپشن’’آزادی‘‘ پانی کو آلودہ کررہا تھا۔ چکوٹھی میں ریلیوں کی طرح ہرسال 27اکتوبر کو یوم سیاہ منایا جاتا ہے۔

گلگتی واحد شخص تھا جو اپنے ساتھ نظم و ضبط کے ساتھ مجمع لاتا۔ دیگر غیر سنجیدہ تھے۔ جو تقاریر کر کے چلے جاتے لیکن 1990کی دہائی میں کشمیر میں تحریک آزادی کے ارتقاء کے ساتھ حریت کانفرنس کی تشکیل نے جدوجہد آزادی کو سمت دی اور یہ اچھی بات تھی۔ اس باب میں اے ایس دولت نے بتایا کہ بھارت میں ’’را‘‘ اور انٹیلی جنس بیورو مل کر کام کرتے ہیں۔ تاہم اسد درانی نے اعتراف کیا کہ اگر بھارت میں مذکورہ دو ادارے مل کر کام کرتے ہیں تو وہ ہم سے ایک قدم آگے ہیں۔ جب ادتیاسنہا نے میڈیا کے کردار کے بارے میں سوال کیا تو درانی نے کھل کراعتراف کیا کہ میڈیا میں ایجنسیوں نے سرمایہ کاری کی۔ اس کی ابتداء بھارت نے کی۔ اسددرانی کے مطابق دونوں میں قدر مشترک میڈیا وار ہے۔ ٹی وی چینلز کو بھی فنڈز دیئے جاتے ہیں۔ ایک بھارتی چینل پہلا تھا جس کو فنڈنگ کی گئی ۔ جس پر اے ایس دولت نے سوال کیا کس نے چینل کو پیسے دیئے، آئی ایس آئی؟ اسد درانی نے کہا کہ آئی ایس آئی تو بعد میں میدان میں آئی۔ دولت نے کہا اسد کا کہنا ہے خود بھارتی انٹیلی جنس ایجنسی نے چینل کو اسپانسر کیا تھا۔

جس پر اسد درانی نے کہا اگر مجھے یاد ہے تو یہ ایجنسی ’’را‘‘ تھی جس نے ڈھائی کروڑ ڈالرز دیئے تھے اور اس زمانے میں یہ کم رقم نہیں تھی۔ لیکن دولت کا کہناتھا اس کا مقصد کیاتھا، آج تک معلوم نہیں ہو سکا۔ اسد درانی نے بتایا ’’را‘‘ کے لئے چینل شروع کرنا۔ ہرجگہ انٹیلی جنس اداروں کے خیال میں یہی مقصد تھا تاکہ اعصابی جنگ کو آگے بڑھایا جا سکے۔ ان کے خیال میں امریکی سی آئی اے ایک تھرڈ ریٹ سروس ہے۔ اس نے صحافیوں کو پس پردہ استعمال کیا۔ امریکی اور برطانوی انٹیلی جنس ادارے حقائق تخلیق کرنے اور میڈیا کے ذریعہ ماحول بنانے میں ماہر ہیں۔ ادتیاسنہا کے اس سوال پر کہ آئی ایس آئی نے کسی بھارتی چینل کو اسپانسر کیوں نہیں کیا؟ اسد درانی نے کہا ان کے خیال میں وزیراعظم اور قومی سلامتی کونسل اس تخیل پر جاگ گئے ہیں اور بھارت میں ’’اثاثے‘‘ تخلیق کرنا شروع کر دیئے ہیں۔ یہ اثاثے درست ہیں یا غلط انہوں نے کہا میں یہ نہیں جانتا۔ مثال کے طورپر لاہور کے ایک انگریزی روزنامے میں کسی ہندو یا سکھ نام سے مضمون شائع ہوا اور یہ کسی آئی ایس آئی افسر کے علاوہ کسی اور کا لکھا نہیں ہوسکتا۔