counter easy hit

سعودی ولی عہد اور وزیراعظم عمران خان میں کون سی 2 باتیں مشترک ہیں؟

لاہور: پاکستان کے معروف عالم دین کا کہا ہے کہ وزیراعظم عمران خان اور سعودی والی عہد کے درمیان ایک قدر مشترک ہے۔ دونوں کہتے ہیں کہ امت مسلمہ کو اپنے قدموں پر کھڑا ہونا چاہئے ۔دونوں یہ کہتے ہیں کہ کرپشن کو ختم ہونا چاہئے۔

تفصیلات کے مطابق سعودی امور کے ماہر سمجھے جانے والے ممتاز عالم دین اور پاکستان علما کونسل کے چیئرمین علامہ طاہر محمود اشرفی نے کہا ہے کہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اور پاکستانی وزیر اعظم عمران خان میں دو چیزیں مشترک ہیں ،دونوں ملکوں کے یہ رہنما امت مسلمہ کو اپنے قدموں پر کھڑا دیکھنا چاہتے ہیں اور دونوں لیڈر ہی کرپشن کے خلاف ہیں ،سعودی ولی عہد کا 2030 کا ویژن پوری امت مسلمہ کے لئے ہے،سعودی عرب نے ہمیشہ مشکل میں پاکستان کا ساتھ دیا ہے،خود مختار اور آزاد ملک ہیں سعودی عرب سے تعلقات مستحکم اور مضبوط کرنے کے لئے کسی اجازت کی ضرورت نہیں۔

نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں بات چیت کرتے ہوئے علامہ طاہر محمود اشرفی نے کہا ہے کہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اپنے والد کی سرپرستی میں ایک نیا ویژن لے کر عرب دنیا میں چاند ستارے کی طرح ابھرے ہیں،نواز شریف دور میں پاک سعودی تعلقات میں کافی حد تک حکومتی لیول پر ایک سرد مہری تھی ،سعودی عرب سے ہمارا تعلق سیاسی، ذاتی ،سفارتی ہے ہمارا تعلق ارضِ حرمین شریفین کی وجہ سے سعودی عرب کے ساتھ ایمان اور عقیدے کا تعلق ہے،عوام کی سطح پر پاک سعودی تعلقات میں کبھی سرد مہری تھی نہ ہی آئے گی ۔علامہ طاہر محمود اشرفی کا کہنا تھا کہ عمران خان اور محمد بن سلمان کے درمیان ایک چیز مشترک ہے ۔دونوں یہ کہتے ہیں کہ امت مسلمہ کو اپنے قدموں پر کھڑا ہونا چاہئے ۔دونوں یہ کہتے ہیں کہ کرپشن کو ختم ہونا چاہئے۔محمد بن سلمان جب نائب ولی عہد تھے تو وہ دو بار پاکستان آ چکے ہیں لیکن ولی عہد بننے کے بعد وہ پہلی مرتبہ پاکستان آئے ہیں ۔سعودی ولی عہد کا یہ خیال ہےکہ سعودی عرب اور پاکستان کے تعلقات تو بہت ہیں لیکن پاک سعودی تعلقات معاشی،اقتصادی اور عوامی طور پر بھی مضبوط ہونے چاہئیں۔یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب ایک بہت بڑی انویسٹمنٹ لے کر پاکستان آیا ہے ۔جیسا کہ انہوں نے بھی کہہ دیا ہے کہ ابتدائی طور پر 20 ارب ڈالر کی انویسٹمنٹ کی جائے گی۔پھر مزید انویسٹمنٹ کی جائے گی ۔انہوں نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ سعودی ولی عہد کا 2030 کا ویژن پوری امت مسلمہ کے لئے ہے۔ ابھی حال ہی میں سعودی ولی عہد نےاردن ،بحرین اور سوڈان کی جس طرح مدد کی اور اب جس طرح وہ پاکستان کے ساتھ کھڑے ہوئے ہیں اس سے پاکستان کو معاشی اور اقتصادی معاملات میں تقویت ملے گی ۔انہوں نے کہا کہ بجائے اس کہ ہم انتظار کریں کہ کب ہمارے اوپر کوئی آفت آئے تو ہم سعودی عرب سے مدد مانگیں اور سعودی عرب یہ انتظار کرے کہ پاکستان کچھ مانگے تو پھر ہم دیں گے۔اِ سکی بجائے تجارتی ، معاشی، اقتصادی تعلقات سمیت انتہا پسندی ،دہشت گردی اور فرقہ وارانہ تشدد کے خلاف دونوں ملکوں کے مشترکہ تجربے کو ساتھ لے کر آگے بڑھا جائے گا ۔علامہ طاہر اشرفی نے کہا کہ اس دورے کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ ان سارے معاہدوں کی جو آج ہونے جا رہے ہیں ان کی نگرانی سعودی ولی عہد خود کریں گے۔انہوں نے کہا کہ ہر ملک اپنے مفادات کا تحفظ کرتا ہے اسی طرح ہمارے بھی مفادات ہیں اور ہمیں اپنے مفادات کا تحفظ کرنا ہے۔کل جب ایران نے ہندوستان کے ساتھ بات چیت کر کے چاہ بہار کو اس کے حوالے کیا تھا تو کیا اس وقت ایران نے ہم سے پوچھا تھا ؟ایران سمجھتا ہے کہ اس کے مفادات چاہ بہار ہندوستان کو دینے میں ہیں تو اس نے وہ کر لیا ،ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارے ہر مشکل وقت میں سعودی عرب ہمارے ساتھ کھڑا ہوا ہے اور ہم بھی اس کے ساتھ کھڑے ہوئے ہیں ۔ان 70 سالوں میں جب بھی ہم پر گرم ہوا کا جھونکا ہماری طرف آیا ہے تو سعودی عرب ہمارے ساتھ آ کر کھڑا ہوا ہے ۔ہم اپنے مفادات کو دیکھیں گے اور خارجہ پالیسی اس طرح نہیں بنائی جاتی کہ ہمارا پڑوسی کیا کرے گا ؟ اگر پڑوسی کی بات ہے تو ایران اور ہندوستان چاہ بہار پر اکٹھے ہوئے ہیں۔