counter easy hit

نقش گزرے ہوئے لمحوں کے ہیں دل پر کیا کیا

صبح اٹھتے ہی رؤف احمد نے بالوں کو خضاب لگا کر کچھ دیر سکھانے کیلئے چھوڑا اور ساتھ محمد رفیع کا گانا گنگنانا شروع کردیا۔ نہانے کے بعد اچھی خوشبو لگا کر اور سفید شلوار قمیض زیب تن کرکے سامان سے بھرا بیگ اٹھایا۔ کمرے سے نکل کر باہر سڑک پر آگیا۔ آنکھوں میں ایک چمک تھی۔ دل پھولے نہیں سما رہا تھا۔ خیالوں میں بہت گہرا ڈوب چکا تھا کہ اچانک ٹیکسی ڈرائیور نے صدا لگائی۔ صاحب!ایئر پورٹ آچکا ہے۔ کچھ دیر بعد وہ اپنی فلائٹ کا انتظار کر رہا تھا۔ اگلے ہی لحمے وہ جہاز میں بیٹھ گیا۔ دھڑکن جہاز سے پہلے ہی اڑان بھرنے کو بے تاب تھی۔ خیالات کہیں حسین وادیوں کی سیر کو پہنچ چکے تھے۔

رؤف کا دل چاہتا تھا کہ بلند آواز سے چیخے یا ہنستا جائے، دل کچھ ایسا ہی شدید احساس چاہتا تھا لیکن مارے لحاظ کچھ کر نہ سکا کہ ساتھ بیٹھے مسافر کیا سوچیں گے۔ جہازاڑان بھر چکا تھا۔ ایک لمبے سفر کے بعد میں وہ خوشی پالینے والا تھا جس کی برسوں سے تمنا تھی۔ وہ وقت قریب تھا بہت قریب۔ عجیب کفیت طاری تھی۔ آخر وہ وقت آن پہنچا وہ 20 سال کا لمباعرصہ گزار کر جب وطن واپس آیا تو کچھ بھی پہلے جیسا نہیں تھا۔ بچے جن کو ابھی وہ گاؤں کی گلیوں میں کھیلتا دیکھتا تھا۔ اس کے کندھے سے کندھا ملائے کھڑے تھے۔ اس کی بیوی بے آواز لفظوں میں کچھ کہہ رہی تھی جیسے اس نے اپنی بیوی کا خوبصورت وقت برباد کر دیا جو ساتھ گزارا جا سکتا تھا۔

ماں کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ دل ہی دل میں وہ شرمندہ تھا کہ اپنی جنت کو اس کا حق نہیں دے سکا۔ اس کو اپنی جوانی کے لحموں میں سے چند لمحے بھی نہ دے پایا۔ وہ تلخ گھڑیاں ماں نے کس اضطراب سے گزاری ہوں گی کیوں کہ پیسوں اور مال و زر سے زیادہ قدر وقت کی ہی ہوتی ہے۔ رؤف نے جب گھر کی طرف رخت سفر باندھا تو کچا راستہ جو گاؤں کی طرف جاتا تھا سڑک میں تبدیل ہو چکا تھا۔ ہرے بھرے لہلہاتے کھتیوں کی جگہ لال اینٹوں کی کچھ عمارتوں نے لے لی تھی۔ گورنمنٹ سکول بڑی بڑی چاردیواری میں ملبوس ہو چکا تھا۔ اس کو وہ شہتوت اورشیشم کے درخت بھی کہیں نظر نہیں آئے جس کے نیچے ماسٹر جی بیٹھا کرتے تھے۔ گلی کی نکڑ پر چاچے فیقا کی دکان بھی نہیں تھی جہاں سے وہ ٹافیاں اور پسٹریاں خریدا کرتا تھا۔ وہ بوڑھی عورتیں جو گلیوں میں بیٹھ کر اپنے پوتوں کے سویئٹر بُنا کرتی تھیں۔ اس کی نظریں وہ گھر بھی ڈھونڈتی رہیں جس کی چھوٹی چھوٹی دیواریں تھیں، گھر کے صحن میں ایک درخت تھا، جس کی دہلیزپر صنوبر کی لکڑی کا دروازہ تھا، چھت پرجانے کیلئے تنگ زینے والی سیڑھیاں جوگلی سے ہی نظر آتیں تھیں۔

بلآخر رؤف کو ایک بنگلہ نما گھر میں لے جایا گیا اور بتایا گیا کہ یہی وہ گھر ہے جس کو وہ ڈھونڈ رہا تھا۔ اس کے ہی کمائے ہوے پیسے سے اس کے بچپن کی چند ہمسفر اشیا کو ختم کر دیا گیا تھا، جنہوں نے سخت دنوں میں زندگانی کا سفر اس کے ساتھ گزارا تھا۔ آج بہت سی دولت پاس ہے لیکن وہ چاچے فیقے کی دوکان سے ٹافیاں اور پیسٹریاں نہیں خرید سکتا۔ گاڑی تو ہے پر کچے راستے پر کیسے چلائے۔ وہ کھیت کہاں سے لائے جو بہارکے موسم میں سبز قالین بن جایا کرتے تھے۔ سکول کی چاردیواری کیسے توڑے جس نے اس کے بچن کو اپنے پیچھے مقید کرلیا ہے۔ وہ بوڑھی عورتیں جو پوتے کے سویٹر بنتی تھیں۔ تنگ زینوں والی سیڑھیاں اور وہ دہلیز کہاں سے ڈھونڈے جہاں صنوبر کی لکڑی کا دروازہ نصب تھا، یونہی اس نےسب کچھ پا کر بھی سب کچھ کھو دیا۔

فکر روزگار انسان سے زندگی کے حسین پل چھین لیتا ہے۔ عمرکا وہ حصہ جس میں ماں کا پیاراور بیوی، بچوں کی محبت چاہیے ہوتی ہے اس کے بدلے پردیس کی دھوپ چھائوں، اجنبیوں کی تلخ باتیں نصیب ہوتی ہیں۔ اس کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا تھا۔

نقش گزرے ہوئے لمحوں کے ہیں دل پر کیا کیا

مڑ کے دیکھوں تو نظر آتے ہیں منظر کیا کیا

وقت کٹتا رہا مے خانے کی راتوں کی طرح

رہے گردش میں یہ دن رات کے ساغر کیا کیا

شاعر: مشفق خواجہ